زرد ہوتے ہوئے موسم کی نظر جانتا ہوں
چھوڑ جائیں گے پرندے بھی شجر، جانتا ہوں
تو سمجھتا ہے مرا ظرف ، مری نادانی
چپ مروت میں ہوں ہر بات مگر جانتا ہوں
کسی منزل کسی تعبیر کی امید نہیں
خواب تیرا ہے فقط زادِ سفر ، جانتا ہوں
وہ بھی دستک پہ مری کان نہیں دھرتا ہے
میں بھی دنیا میں فقط ایک ہی در جانتا ہوں
ارے قاصد یونہی رنجیدہ پریشان نہ ہو
تو جو لایا ہے خبر ، میں وہ خبر جانتا ہوں
لوٹ آنے پہ ترے جشن ہو برپا کیوں کر
پھر بدل جائے گی کل تیری نظر جانتا ہوں
سر جھکا کر جسے دستار ملے، اس پہ ہے تف
جرم انکار ہو جس کا ، اسے سر جانتا ہوں
میں بھی ہنستا تھا کبھی مجنوں کے افسانوں پر
آج مجنوں کی طرح دشت کو گھر جانتا ہوں