اُلجھن کا عِلاج آہ کوئی کام نہ آیا !
جی کھول کے رویا بھی تو آرام نہ آیا
دل سینے میں جب تک رہا آرام نہ آیا
کام آئے گا کِس کے جو مِرے کام نہ آیا
کام اُس کے نہ کاش آئے وہ مغرور بھی یونہی
جیسے دلِ آوارہ مِرے کام نہ آیا
یہ کہہ کے وہ سرہانے سے بیمار کے اُٹّھے
صد شکر، کہ مجھ پر کوئی الزام نہ آیا
بجلی سی کوئی شے مِرے سینہ میں کبھی تھی
سوچا تو بہت، یاد مگر نام نہ آیا
تا حشر نہ بُھولے گا عزیز اپنی شبِ ہجر
کیا رات تھی وہ رات، کہ آرام نہ آیا
عزیز لکھنوی
اخلاق نہ برتیں گے مدارا نہ کریں گے
اب ہم بھی کسی شخص کی پرواہ نہ کریں گے
کچھ لوگ کئی لفظ غلط بول رہے ہیں
اصلاح مگر ہم بھی اب اصلا نہ کریں گے
کم گوئی کہ اک وصف حماقت ہے ہر طور
کم گوئی کو اپنائیں گے چہکا نہ کریں گے
اب سہل پسندی کو بنائیں گے وتیرہ
تا دیر کسی باب میں سوچا نہ کریں گے
غصہ بھی ہے تہذیب تعلق کا طلب گار
ہم چپ ہیں، بھرے بیٹھے ہیں، غصہ نہ کریں گے
کل رات بہت غور کیا ہے سو ہم اے جون
طے کر کے اٹھے ہیں کہ تمنا نہ کریں گے
جون ایلیا