تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے، بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
Tag: urdupoetry (Page 14 of 39)
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
ڈرے کیوں میرا قاتل؟ کیا رہے گا اُس کی گردن پر
وہ خوں، جو چشم تر سے عمر بھر یوں دم بہ دم نکلے؟
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بے آبرُو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے
بھرم کھل جائے ظالم تیرے قامت کی درازی کا
اگر اس طرۂ پرپیچ و خم کا پیچ و خم نکلے
مگر لکھوائے کوئی اُس کو خط تو ہم سے لکھوائے
ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے
ہوئی اِس دور میں منسُوب مُجھ سے بادہ آشامی
پھر آیا وہ زمانہ جو جہاں میں جامِ جم نکلے
ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستۂ تیغِ سِتم نکلے
ذرا کر زور سینے پر کہ تیر پُرسِتم نکلے
جو وہ نکلے تو دل نکلے، جو دل نکلے تو دم نکلے
کہاں میخانے کا دروازہ غالب! اور کہاں واعظ
پر اِتنا جانتے ہیں، کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے
وہ وہاں محفلِ اغیار کئے بیٹھے ہیں
ہم یہاں دشت کو بیزار کئے بیٹھے ہیں
وہ جو کہتے تھے محبت ہے محبت تم سے
آج اس جرم سے انکار کئے بیٹھے ہیں
زندگی ویسے تو کچھ دور نہیں ہے ہم سے
بیچ رستے میں وہ دیوار کئے بیٹھے ہیں
کہہ گیا تھا وہ کہ خوابوں سے نکالو ہم کو
خود کو تعمیل میں بیدار کئے بیٹھے ہیں
اک طرف ہم سے کہیں ہم سے کنارہ کیجے
اک طرف دل میں گرفتار کئے بیٹھے ہیں
پھر بھلا چاند ستاروں سے انہیں کیا لینا
لوگ جو آپ کا دیدار کئے بیٹھے ہیں
ہم تھے سمجھے کہ کوئی خاص کرم ہے ہم پر
ان کے نسخے کئی بیمار کئے بیٹھے ہیں
اک خبر مجھ کو بنا کر مرے سب چارہ گر
خود کو ہر چوک میں اخبار کئے بیٹھے ہیں
ہم کو معلوم کہ انجام ہے رسوائی اب
ضد محبت کی یہ بے کار کئے بیٹھے ہیں
لوگ ابرک ترے شعروں کو بتا کر اپنا
وقت کو اپنا پرستار کئے بیٹھے ہیں
Pehle to uss ne gham ke fawaid kiye bayan,
Phir waqfa le ke kehne laga, Khush raha karo…
پہلے تو اس نے غم کے فوائد کئے بیان
پھر وقفہ لے کے کہنے لگا ، خوش رہا کرو
Dil ko isi guman mein rakha hai umar bhar,
Iss imtehan key baad koi imtehan nahin…
دل کو اسی گمان میں رکھا ہے عمر بھر
اس امتحان کے بعد کوئی امتحان نہیں
To kya hua jo aap ke shumar mein nahin raha,
Mein mukhtalif sa shakhs tha hazar mein nahin raha…
تو کیا ہوا جو آپ کے شمار میں نہیں رہا
میں مختلف سا شخص تھا ہزار میں نہیں رہا
Sar hi ab phorain nidamat mein,
Neend aane lagi hai furqat mein,
Hain dalilain tere khilaaf magar,
Sochta hoon teri himayat mein…
سر ہی اب پھوڑیں ندامت میں
نیند آنے لگی ہے فرقت میں
ہیں دلیلیں تیرے خلاف مگر
چھوڑ جانے کا سبب بھی نہ بتایا جائے
اب جِسے جانا ہے وہ شوق سے ، ہاہا جائے
کس قدر تلخ رویے سہے ہم نے چپ چاپ
کتنی کوشش تھی کہ رشتوں کو بچایا جائے
اس نے رکھا ہی نہیں اپنی رفاقت کا بھرم
ہم نے چاہا تھا اُسے ٹوٹ کے چاہا جائے
وہ بھی کیا لوگ ہیں ملتی ہے پذیرائی جنہیں
ہم کو حسرت ہی رہی ہم کو سراہا جائے
کہہ رہا تھا کوئی آ کر کہ اُسے جانا ہے
ہم نے بھی کہہ دیا جانا ہے تو اچھا جائے
اپنی عادت ہے بکھر کر خود ہی یکجا ہونا
اب تو خواہش ہی نہیں ہے کہ سنبھالا جائے
اے خُدا یا تو مجھے سونپ دیا جائے وہ
یا مرے دل سے اِسی وقت نکالا جائے
جتنا پیارا خود ہے اُتنی پیاری اُس کی سوچ ہے
اُف وہ اتنا خوبصورت ہے کہ تیری سوچ ہے
نسلِ نَو کے شاعروں کو ہلکا پُھلکا مت سمجھ
جتنی سادہ شاعری ہے اُتنی گہری سوچ ہے
اختلافِ رائے کا مطلب عداوت تو نہیں
تیری اپنی سوچ ہے اور میری اپنی سوچ ہے
اُس کو چُھو لینا تو ہے اچھے نصیبوں والی بات
ویسے اُس کو سوچتے رہنا بھی اچھی سوچ ہے
اپنی رائے دینے سے کافر مَیں کیسے ہوگیا ؟
مجھ کو رکھنے دیجیے جو میری ذاتی سوچ ہے
حُسینؓ آپ سے سیکھا ہے بولنا میں نے
سو ظلم دیکھ کے خاموش رہ نہیں سکتا
میں جُوئے علم میں غوطہ زنی کا قائل ہوں
سو سطحِ آب پہ چُپ چاپ بہہ نہیں سکتا
حُسینؓ آپ سے عیسٰی صِفَت کے ہوتے ہوئے
عطائیوں کو مسیحا میں کہہ نہیں سکتا
ہزار زخم عداوت کے سہہ رہا ہوں مگر
درِ حسینؓ سے دُوری میں سہہ نہیں سکتا