مانگے بنا ہمیں یہ رعایت بھی ہو گئی
رونا چھپاتے، ہنسنے کی عادت بھی ہو گئی
ویسے تو اس سے پہلے بھی خانہ خراب تھا
پھر یوں ہؤا کہ ہم کو محبت بھی ہو گئی
دیکھا ہے تو نے آئینہ جڑتے ہوئے کبھی
وہ دل ہی کیا کہ جس کی مرمت بھی ہو گئی
اتنا بتا دے کھو کے کسی کو یوں یک بہ یک
پھر پہلے جیسی کیسے طبیعت بھی ہو گئی
تب تک اٹھائے ناز ضرورت تھا جب تلک
پھر ایک روز پوری ضرورت بھی ہو گئی
تا عمر ساتھ چلنے کا وعدہ کیا تھا کل
اور آج تم کو ہم سے شکایت بھی ہو گئی
لوٹا کوئی تو زخم پرانے بھی کھل اٹھے
تجدیدِ بے وفائی کی صورت بھی ہو گئی
کچھ ہاتھ کی لکیروں میں لکھا سبب بنا
کچھ حادثوں کی ہم پہ عنایت بھی ہو گئی
ایسا نہیں کہ جس کے تھے اس کے ہی بس رہے
دو چار بار ہم سے خیانت بھی ہو گئی
Tag: poetrycollection (Page 15 of 24)
Aaeina rakh key saamney yaa rab wo fitna saaz,
Tarmeem kar raha hai terey shahkaar mein…
آئینہ رکھ کے سامنے یا رب وہ فتنہ ساز
ترمیم کر رہا ہے تیرے شہکار میں
اَب ہم بِھی کُچھ اِظہارِ تَمنّا نَہ کریں گے
وُہ رُوٹھ گئے ہیں تو ہَمارا بِھی خُدا ھَے
Khush fehmiyun key silsily itney daraz hain,
Har eent sochti hai dewar mujh sey hai…
خوش فہمیوں کے سلسلے اتنے دراز ہیں
ہر اینٹ سوچتی ہے دیوار مجھ سے ہے
Iss raah-e-shoq mein merey na tajurba shanas,
Gheeron sey dar na dar magar apno sey ahtiyat..
اس راہ شوق میں میرے نہ تجربہ شناس
غیروں سے ڈر نہ ڈر مگر اپنوں سے احتیاط
نہ جینے کی سہولت ہے نہ مرنے کی اجازت ہے
بہت آسان ہے کہنا، مجھے تم سے محبت ہے
مجھے اُس کی، اُسے اُس کی، اُسے اُس کی ضرورت ہے
سوائے اِس مصیبت کے یہ دنیا خوبصورت ہے
غمِ ہستی ، غمِ بستی ، غمِ دوراں، غمِ ہجراں
اور اس پر بھی دھڑکنا دل کا، ہم کو اس پہ حیرت ہے
کسی کی چپ کا مطلب یہ نہیں، شکوہ نہیں اُس کو
کھلا اعلان ہے یہ تو ، شکایت ہی شکایت ہے
مکر جانا ، بدل جانا ، جفا کرنا ، دغا دینا
یہ سب کچھ آ گیا تجھ کو تو پھر تیری حکومت ہے
نہ اب صیاد ہے حائل نہ میری قید ہے باقی
تو پھر زندان یہ کیونکر ، تو پھر کیسی حراست ہے
کچھ اتنا ڈوب جاتا ہے یہ ابرک ہر کہانی میں
ہر اک کردار کی وحشت لگے اپنی ہی وحشت ہے
خواب دکھلا کے نکل جاتے ہیں تعبیروں سے
ہم بندھے رہتے ہیں خود ساختہ زنجیروں سے
غور کرنے پہ بھی اب یاد نہیں آتا ہے
پوچھنا پڑتا ہے، میں کون ہوں، تصویروں سے
یوں نہیں ہے کہ فقط تو ہی خفا ہے مجھ سے
خود بھی عاجز ہوں بہت، اپنی ہی تدبیروں سے
مجھ کو معلوم نہیں پڑتا عدو کون ہے تو
میں پتہ پوچھتا رہتا ہوں ترا، تیروں سے
جیتنا ہے تو محبت سے ہرانا ہو گا
لوگ ڈرتے نہیں اب آپ کی شمشیروں سے
دن بدل جائیں گے تیرے جو خدا مل جائے
خود بخود ہاتھ چھڑا لے گا تو ان پیروں سے
وہ تو کہتا ہے کہ آسان زباں ہے میری
ہم نے آسانی کو مشکل کیا تفسیروں سے
آج سب سے بڑے ناقد ہیں وہی لوگ مرے
جن کو تحریک ملی تھی مری تحریروں سے
نہ جانے کتنے ٹکڑوں میں بٹا ہوں
میں اپنے ہاتھ سے خود گر پڑا ہوں
گھٹن ، وحشت ہی باقی رہ گئی ہے
میں کب کا خود سے ہجرت کر چکا ہوں
روایت سے نہیں بنتی ہے میری
خطا میری ہے میں کیوں سوچتا ہوں
مٹانے کو مجھے سب مر رہے ہیں
سو یہ تو طے ہؤا سب سے بڑا ہوں
تمہارے مشوروں سے لگ رہا ہے
میں دنیا میں اکیلا رہ گیا ہوں
یہی اک حل سمجھ آیا تھا مجھ کو
خفا تجھ سے تھا خود سے لڑ پڑا ہوں
کوئی آئے بٹائے ہاتھ میرا
میں اپنے بوجھ سے تھکنے لگا ہوں
مقابل زیر کر بیٹھا تو دیکھا
اب اپنے سامنے میں خود کھڑا ہوں
رہتا ہے ساتھ ساتھ وہ جانے کے بعد بھی
ملبہ وہیں پڑا ہے اٹھانے کے بعد بھی
سمجھے تھے ہم کہ آخری دشواریاں ہیں یہ
اک اور تھا زمانہ ، زمانے کے بعد بھی
کر ہجر میں شمار اسے وصل میں نہ لکھ
آیا نہ اب کی بار وہ آنے کے بعد بھی
مجھ سے زیادہ حافظہ ہے مبتلا مرا
پڑھتا ہے تیرے خط یہ جلانے کے بعد بھی
اب پیرِ تسمہ پا سے نہیں کم یہ زندگی
جو بچ گئی ہے تجھ پہ لٹانے کے بعد بھی
یوں کارِ عشق فرق ہے کارِ جہان سے
بڑھتا ہے بوجھ اور گھٹانے کے بعد بھی
تقدیر سے انہیں بھی گلہ ہے، عجیب ہے
ملتے نہیں جو لوگ ملانے کے بعد بھی
شاید رواج ہی نہیں ابرک یہاں رہا
رسوا ہوں کیوں وگرنہ نبھانے کے بعد بھی
ایسی سیاہ رات سے ہے واسطہ پڑا
روشن ہؤا دیا نہ جلانے کے بعد بھی
اکتا گیا ہے اک ہی مشقت سے دل مرا
لگتا نہیں ہے اب یہ لگانے کے بعد بھی
سرِ بازار سجاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
گر قلم بیچ کے کھاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
جھوٹ کے پاؤں بناتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
آنکھ دیکھا نہ دکھاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
وقت کی دھونس میں آتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
شاہ کے ناز اٹھاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
راہ سیدھی نہ دکھاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
خضر ، رہزن کو بتاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
خونِ ناحق جو چھپاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
ظلم انصاف بتاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
بات بے وجہ بڑھاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
دیے نفرت کے جلاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
خود کو لفظوں میں نچاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
بس خریدار رجھاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو