Tag: ATBAFABRAKPOETRY (Page 2 of 3)

DARHTI CHATKH RAHI HAI JO PAANI KE BAWAJOD

دھرتی چٹخ رہی ہے جو پانی کے باوجود
کچھ تو رُکا ہُوا ہے روانی کے باوجود
اے نخلِ نو بہار تیرے ساتھ کیا ہُوا
شانے جھکے ہوئے ہیں جوانی کے باوجود
ہم صنعتِ تضاد کی زندہ مثال ہیں
ہنسنا پڑا ہے اشک فشانی کے باوجود
یہ دورِ داستان فروشاں ہے سو یہاں
چلتی نہیں ہے بات کہانی کے باوجود
نقصان تو کرے گی یہ عُجلت کی پختگی
لفظوں میں رَس نہ ہو گا معانی کے باوجود
ہم نے جڑوں سے پیار کیا اور جُڑے رہے
اب تک ہرے ہیں عُمر خزانی کے باوجود


WOHI KALAM KARE JIS KO GHUFTAGO AYE

وہی کلام کرے جس کو گفتگو آئے
سخن شناس ہے کوئی تو روبرو آئے
ہم اپنا دل لیے بیٹھے ہیں بام پر بے بس
وہ جن کے پاس تھے پیسے وہ چاند چھو آئے
دئیے بجھائے ہواؤں نے توڑ دی مینا
برس چکی جو گھٹائیں تو ہم سبو آئے
ابھی سے پھر لیے جاتے ہو کوئے دلبر میں
ابھی تو یار لٹا کر ہیں آبرو آئے
اسی اجاڑ اندھیرا بھرے مکاں میں حسن
میں چاند رات سجاؤں جو یار تو آئے


LE GAYA ROOH, BADAN CHOR GAYA

لے گیا روح ، بدن چھوڑ گیا
خواب آنکھوں میں کفن چھوڑ گیا
ہم کو مشکل میں مگن چھوڑ گیا
دل بھی اب تیری لگن چھوڑ گیا
دوست آیا تھا تُو تو میرے لئے
تُو تو اپنی بھی تھکن چھوڑ گیا
پہلے مہکا کوئی خوشبو کی طرح
پھر وہ سانسوں میں گھٹن چھوڑ گیا
ہم پرندوں پہ تھی ہجرت لازم
جب شجر ہی وہ چمن چھوڑ گیا
پھر وفا کا سکھا کے ہم کو چلن
خود وہ کم ظرف یہ فن چھوڑ گیا


UMAR BHAR RASAM-E-PESH WAPAS MEIN RAHE

عمر بھر رسمِ پیش و پس میں رہے
کیا عجب پھر کہ خار و خس میں رہے
آپ کے غم کی دسترس میں رہے
اس برس بھی اُسی برس میں رہے
بے بسی اور کس کو کہتے ہیں
جو نہیں ہے، اسی کے بس میں رہے
تجھ سے ملنا تو خیر خواب ہی تھا
خود سے ملنے کی ہم ہوس میں رہے
صید ہوتے تو کوئی بات بھی تھی
ہو کے صیاد ہم قفس میں رہے


DOOR HAD-E-NAZAR SE AGEY KAHIN

دور حدِ نظر سے آگے کہیں
زندگی اب بھی مسکراتی ہے
اب بھی سورج کی ہے وہی عادت
گھر کے آنگن کو وہ جگاتا ہے
مرمریں شوخ سی حسیں کرنیں
چہرے سب چوم کر اٹھاتی ہیں
وہاں صبحیں بڑی توانا ہیں
اور سب دن بھی خوب دانا ہیں
منہ اندھیرے سفر کو جاتے ہیں
روز پھر گھر میں شام ہوتی ہے
وہی برگد تلے کی ہیں شامیں
ایک حقہ تو ہیں کئی سامع
اب بھی فکریں گلی محلے کی
باتوں باتوں میں ختم ہوتی ہیں
وہی بچوں کا ہے حسیں بچپن
جگنو, تتلی کی ہے وہی ان بن
وہی جھریوں سی پیاری نانی ہے
وہی پریوں کى اک کہانی ہے
سبھی موسم وہاں نشیلے ہیں
وہی قوسِ قزح کے جھولے ہیں
وہاں بارش کی مستیاں اب تک
ٹین کی چھت پہ گنگناتی ہیں
ہے سخن باکمال لوگوں کا
میٹھا پن لازوال لہجوں کا
سچ ہے جذبوں کی روح میں شامل
واں محبت نہ آزماتی ہے
وہاں باقی ہے دوستی کا مان
اور رشتوں میں جان باقی ہے
اب بھی جنت ہے ماں کے قدموں میں
اب بھی ماں لوریاں سناتی ہے
خوشبویں مٹیوں میں زندہ ہیں
عکس بھی پانیوں میں ہیں باقی
اب بھی تاروں کے سنگ راتوں کو
چاندنی محفلیں سجاتی ہے
اب بھی راتوں کو چاند کی سکھیاں
اپنے چندا سے ملنے جاتی ہیں
اور کھڑے دور ایک سائے کو
اپنی سب دھڑکنیں سناتی ہیں
اب تلک امن فاصلوں میں ہے
جشن بھرپور قافلوں میں ہے
گھر کو سب لوٹتے مسافر ہیں
ان کی یادیں نہیں ستاتی ہیں
چلو ہم بھی وہیں پہ چلتے ہیں
دل جہاں آج بھی دھڑکتے ہیں
جہاں اب تک یہ وقت ساکن ہے
زندگی اب بھی مسکراتی ہے
دور حدِ نظر سے آگے کہیں
زندگی اب بھی مسکراتی ہے


MERE HISE MEIN KAM KAM ARAHA HAI

مرے حصے میں کم کم آ رہا ہے
کہاں تو یار بٹتا جا رہا ہے
میسر چودھویں کا چاند بھی ہے
اماوس کا مزا بھی آ رہا ہے
ہمیں اس پھول سے یہ مسئلہ ہے
کہ خوشبو چار سو پھیلا رہا ہے
بچھڑنے تک یقیں تھا پھر یہ خطرہ
ٹلے گا جس طرح ٹلتا رہا ہے
نہ خود کو کوس تو اپنے کئے پر
ہمارے ساتھ یوں ہوتا رہا ہے
جہاں تو تھا وہاں کوئی رہے کیوں
ہمارا خود سے یہ جھگڑا رہا ہے
جدائی نے بجھا ڈالا ہے اس کو
ترے پہلو میں جو جلتا رہا ہے


AZMANEY KI CHEZ THA HI NAHIN

آزمانے کی چیز تھا ہی نہیں
دل لگانے کی چیز تھا ہی نہیں
کاش بر وقت ہم سمجھ پاتے
تو گنوانے کی چیز تھا ہی نہیں
ہو کے ناراض تجھ سے یہ جانا
میں منانے کی چیز تھا ہی نہیں
جی جلا کر خبر یہ ہوتی ہے
جی جلانے کی چیز تھا ہی نہیں
متفق ہوں میں اس زمانے سے
میں زمانے کی چیز تھا ہی نہیں
اس کی بخشش ہے ہم فقیروں پر
غم کمانے کی چیز تھا ہی نہیں
مجھ کو بھولے ہوئے بھی مانتے ہیں
میں بھلانے کی چیز تھا ہی نہیں


LAGA KEY KANDHEY SEY HUM KO RULANEY WALA NAHIN

لگا کے کاندھے سے ہم کو رلانے والا نہیں
جو کہہ گیا ہے کہ آئے گا آنے والا نہیں
گزارا کرنا پڑے گا ہمارے دل میں تمہیں
یہاں جو پہلے سے رہتا ہے جانے والا نہیں
وہ کوئی اور تعلق بنانے بیٹھ گیا
میں اٹھ گیا کہ نہیں، گر پرانے والا نہیں
ہمارے ساتھ شبِ غم گزارنی ہو گی
ہمارا قصہ سرِ رہ سنانے والا نہیں
میں اپنی راہ کو گھر سے بتا کے چلتا ہوں
میں حادثہ ہوں تجھے راس آنے والا نہیں
کچھ اس لئے بھی ہے یاروں سے جی اچاٹ مرا
کہ ان میں عیب کوئی اب پرانے والا نہیں
تو دیکھ سوجھی حفاظت کی کس جگہ ہم کو
بچا ہی پاس جہاں کچھ بچانے والا نہیں
وگرنہ کب کا میں ناراض ہو چکا ہوتا
تمہارے بعد کوئی اب منانے والا نہیں
دعائے خیر ہو ابرک ، ترا خدا حافظ
تو کچھ بھی کر لے تجھے ہوش آنے والا نہیں


BAHAREIN GUM HAIN, MUSALSAL KHIZAN KA MOSAM HAI

بہاریں گم ہیں ، مسلسل خزاں کا موسم ہے
کسی کے بس میں بھلا کب یہاں کا موسم ہے
وہ اور لوگ ہیں موسم بدلتے ہیں جن کے
یہاں تو مستقل اشکِ رواں کا موسم ہے
میں آنکھ، کان، زباں پر یقیں کروں کیسے
میں دل ہوں دل میں فقط اک گماں کا موسم ہے
خدا کے حکم کے برعکس ہے نظام یہاں
خفا یونہی تو نہیں آسماں کا موسم ہے
خدا خدا ہے، خدا دے کے لے بھی سکتا ہے
سو آج کل یہاں آہ و فغاں کا موسم ہے
یہ ٹھیک ہے کہ مقدر بھی دخل رکھتا ہے
ترے ہی ہاتھ تری داستاں کا موسم ہے
بھلا اتارے کوئی کیسے کاغذوں میں اسے
وہ چہرہ چہرہ نہیں گلستاں کا موسم ہے
عبث ہے بونا محبت کہ دل ہی بنجر ہیں
جہاں کی سوچ میں تیر و کماں کا موسم ہے
وہ حال پوچھے یہاں کا تو یہ بتا دینا
جہاں پہ تو ہی نہیں، کیا وہاں کا موسم ہے
یہ بات ٹھیک نہیں ہے کہ آج کل ابرک
ترے لکھے میں بھی سود و زیاں کا موسم ہے


MANGEY BINA HUMEIN YE RIYAT BHI HOGAI

مانگے بنا ہمیں یہ رعایت بھی ہو گئی
رونا چھپاتے، ہنسنے کی عادت بھی ہو گئی
ویسے تو اس سے پہلے بھی خانہ خراب تھا
پھر یوں ہؤا کہ ہم کو محبت بھی ہو گئی
دیکھا ہے تو نے آئینہ جڑتے ہوئے کبھی
وہ دل ہی کیا کہ جس کی مرمت بھی ہو گئی
اتنا بتا دے کھو کے کسی کو یوں یک بہ یک
پھر پہلے جیسی کیسے طبیعت بھی ہو گئی
تب تک اٹھائے ناز ضرورت تھا جب تلک
پھر ایک روز پوری ضرورت بھی ہو گئی
تا عمر ساتھ چلنے کا وعدہ کیا تھا کل
اور آج تم کو ہم سے شکایت بھی ہو گئی
لوٹا کوئی تو زخم پرانے بھی کھل اٹھے
تجدیدِ بے وفائی کی صورت بھی ہو گئی
کچھ ہاتھ کی لکیروں میں لکھا سبب بنا
کچھ حادثوں کی ہم پہ عنایت بھی ہو گئی
ایسا نہیں کہ جس کے تھے اس کے ہی بس رہے
دو چار بار ہم سے خیانت بھی ہو گئی


« Older posts Newer posts »