Khuda ke doston ki andheri raat bhi roz roshan ki tareh chamkti hai…
…خدا کے دوستوں کی اندھیری رات بھی روز روشن کی طرح چمکتی ہے
Khuda ke doston ki andheri raat bhi roz roshan ki tareh chamkti hai…
…خدا کے دوستوں کی اندھیری رات بھی روز روشن کی طرح چمکتی ہے
مرحلے شوق کے دُشوار ہُوا کرتے ہیں
سائے بھی راہ کی دیوار ہُوا کرتے ہیں
وہ جو سچ بولتے رہنے کی قسم کھاتے ہیں
وہ عدالت میں گُنہگار ہُوا کرتے ہیں
صرف ہاتھوں کو نہ دیکھو کبھی آنکھیں بھی پڑھو
کچھ سوالی بڑے خودار ہُوا کرتے ہیں
وہ جو پتھر یونہی رستے میں پڑے رہتے ہیں
اُن کے سینے میں بھی شہکار ہُوا کرتے ہیں
صبح کی پہلی کرن جن کو رُلا دیتی ہے،
وہ ستاروں کے عزادار ہُوا کرتے ہیں
جن کی آنکھوں میں سدا پیاس کے صحرا چمکیں
در حقیقت وہی فنکار ہُوا کرتے ہیں
شرم آتی ہے کہ دُشمن کِسے سمجھیں محسن
دُشمنی کے بھی تو معیار ہُوا کرتے ہیں
Mujh ko paani mein utarney ka ishara kar key,
Jaa chuka chaand samandar sey kinara kar key,
Tajurba aik he aibrat key lye kafi tha,
Mein ney dekha he nahin ishq dobara kar key…
مجھ کو پانی میں اترنے کا اشارہ کر کے
جا چکا چاند سمندر سے کنارہ کر کے
تجربہ ایک ہی عبرت کے لئے کافی تھا
میں نے دیکھا ہی نہیں عشق دوبارہ کر کے .
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں
ورنہ کیا بات کرنا نہیں آتی
کیوں نہ چیخوں کہ یاد کرتے ہیں
میری آواز گر نہیں آتی
داغِ دل گر نظر نہیں آتا
بو بھی اے چارہ گر نہیں آتی
ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی
مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی
موت آتی ہے پر نہیں آتی
کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
Agar tumhe zindagi ki haqeeqat maloom ho jaye…
to beshak tum koi aur saathi na chunoge siwae Allah aur uski muhbat ke…
…اگر تمہیں زندگی کی حقیقت معلوم ہو جائے
…تو بےشک تم کوئی اور ساتھی نہ چنوگے سواۓ الله اور اسکی محبت کے
تسکین نہ ہو جس سے وہ راز بدل ڈالو
جو راز نہ رکھ پائے، ہمراز بدل ڈالو
تم نے بھی سُنی ہو گی بڑی عام کہاوت ہے
انجام کا جو ہو خطرہ ، آغاز بدل ڈالو
پُرسوز دِلوں کو جو مسکان نہ دے پائے
سُر ہی نہ مِلے جس ساز میں ، وہ ساز بدل ڈالو
دشمن کے ارادوں کو ہے ظاہر اگر کرنا
تم کھیل وہی کھیلو ، انداز بدل ڈالو
اے دوست کرو ہمت کچھ دُور سویرا ہے
اگر چاہتے ہو منزل ، تو پرواز بدل ڈالو
راستوں سے کیا گلہ ہے جو منزل یہاں نہیں
جس پار تھا اترنا وہ ساحل یہاں نہیں
مانا وہی ہے شہر، وہی بھیڑ بھاڑ ہے
جس کو میری تلاش وہ محفل یہاں نہیں
لازم ہمی پہ کیوں ہے، ہر اک خواب دیکھنا
کیوں ہم کسی کے خواب کا حاصل یہاں نہیں
ممکن کہاں ہے اور کی اب جستجو کروں
جب اک نظر کے بھی کوئی قابل یہاں نہیں
تم اور تمہارے بعد یہ آسانیاں ہوئیں
اب اور کوئی بھی ہمیں مشکل یہاں نہیں
کیسے کہوں یہ جھوٹ کہ سینے میں دل نہیں
یہ بھی ہے سچ وہ پہلی سی ہلچل یہاں نہیں
نیندوں کو ہم سے بچھڑے زمانے گزر گئے
یادوں سے آج کہنا وہ غافل یہاں نہیں
جو بھی یہاں پہ نکلا محبت کو بانٹنے
دریا میں پھینک آیا کہ سائل یہاں نہیں
ابرک، اٹھو، چلو کہیں دیتے ہیں اور جاں
تو جس کو ڈھونڈتا ہے وہ قاتل یہاں نہیں
ہے حقیقت عذاب رہنے دو
ٹوٹ جائے گا خواب رہنے دو
کب سزاوار ہوں عنایت کا
یونہی زیرِ عتاب رہنے دو
تم جلا دو کتابِ ہستی کو
اک محبت کا باب رہنے دو
بے خودی میں سوال کر بیٹھا
چپ رہو، لاجواب رہنے دو
اب اتارو زمیں پہ چاند کوئی
یا انہیں بے نقاب رہنے دو
لوگ رکھے ہیں اب نظر ہم پر
فرشتو تم حساب رہنے دو
دیکھ بیٹھا ہوں پارساؤں کو
ہم کو یونہی خراب رہنے دو
مر نہ جائیں کہیں سکوں سے ہم
دل میں کچھ اضطراب رہنے دو
دل، جگر، جان آپ ہیں ابرک
سب ہیں باتیں جناب رہنے دو
کوئی بن گیا رونق اَکھیاں دی
کوئی چھوڑ کے شیش محل چلیا
کوئی پلیاں ناز تےِ نخریان وِچ
کوئی ریِت گرم تے تھل چلیا
کوئی بھل گیا مقصد آون دا
کوئی کرکے مقصد حل چلیا
اِتھے ہر کوئی (فرید) مسافر ہے
کوئی اَج چلیا کوئی کل چلیا
ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کے جس کا وعدہ ہے
جو لوحِ ازل پہ لکھا ہے
ہم دیکھیں گے
جب ظلم و ستم کے کوہِ گراں
روئی کی طرح اُ ڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاوٗں تلے
یہ دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
اور اہلِ حکم کے سر اوُپر
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
ہم دیکھیں گے
جب ارضِ خدا کے کعبہ سے
سب بت اُٹھوائے جائیں گے
ہم اہلِ صفا مردودِ حرم
مسند پر بٹھلائے جائیں گے
سب تاج اُچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
بس نام رہے گا اللہ کا
جو غائب بھی ہے حاضر بھی
جو منظر بھی ہے ناظر بھی
اُٹھے گا انالحق کا نعرہ
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
اور راج کرے گی خلقِ خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
ہم دیکھیں گے
© 2024 Eagle Miscellany