Skip to content

NA JEENEY KI SAHULAT HAI NA MARNEY KI IJAZAT HAI

نہ جینے کی سہولت ہے نہ مرنے کی اجازت ہےبہت آسان ہے کہنا، مجھے تم سے محبت ہےمجھے اُس کی، اُسے اُس کی، اُسے اُس کی ضرورت ہےسوائے اِس مصیبت کے یہ دنیا خوبصورت ہےغمِ ہستی ، غمِ بستی ، غمِ دوراں، غمِ ہجراںاور اس پر بھی دھڑکنا دل کا، ہم کو اس پہ حیرت ہےکسی کی چپ کا مطلب یہ نہیں، شکوہ نہیں اُس کوکھلا اعلان ہے یہ تو ، شکایت ہی شکایت ہےمکر جانا ، بدل جانا ، جفا کرنا ، دغا دینایہ سب کچھ آ گیا تجھ کو تو پھر تیری حکومت ہےنہ اب صیاد ہے حائل نہ میری قید ہے باقیتو پھر زندان یہ کیونکر ، تو پھر کیسی حراست ہےکچھ اتنا ڈوب جاتا ہے یہ ابرک ہر کہانی میںہر اک کردار کی وحشت لگے اپنی ہی وحشت ہے


Published inPoetry

Be First to Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *