نہ جینے کی سہولت ہے نہ مرنے کی اجازت ہے
بہت آسان ہے کہنا، مجھے تم سے محبت ہے
مجھے اُس کی، اُسے اُس کی، اُسے اُس کی ضرورت ہے
سوائے اِس مصیبت کے یہ دنیا خوبصورت ہے
غمِ ہستی ، غمِ بستی ، غمِ دوراں، غمِ ہجراں
اور اس پر بھی دھڑکنا دل کا، ہم کو اس پہ حیرت ہے
کسی کی چپ کا مطلب یہ نہیں، شکوہ نہیں اُس کو
کھلا اعلان ہے یہ تو ، شکایت ہی شکایت ہے
مکر جانا ، بدل جانا ، جفا کرنا ، دغا دینا
یہ سب کچھ آ گیا تجھ کو تو پھر تیری حکومت ہے
نہ اب صیاد ہے حائل نہ میری قید ہے باقی
تو پھر زندان یہ کیونکر ، تو پھر کیسی حراست ہے
کچھ اتنا ڈوب جاتا ہے یہ ابرک ہر کہانی میں
ہر اک کردار کی وحشت لگے اپنی ہی وحشت ہے