لے گیا روح ، بدن چھوڑ گیا
خواب آنکھوں میں کفن چھوڑ گیا
ہم کو مشکل میں مگن چھوڑ گیا
دل بھی اب تیری لگن چھوڑ گیا
دوست آیا تھا تُو تو میرے لئے
تُو تو اپنی بھی تھکن چھوڑ گیا
پہلے مہکا کوئی خوشبو کی طرح
پھر وہ سانسوں میں گھٹن چھوڑ گیا
ہم پرندوں پہ تھی ہجرت لازم
جب شجر ہی وہ چمن چھوڑ گیا
پھر وفا کا سکھا کے ہم کو چلن
خود وہ کم ظرف یہ فن چھوڑ گیا