خواب دکھلا کے نکل جاتے ہیں تعبیروں سے
ہم بندھے رہتے ہیں خود ساختہ زنجیروں سے
غور کرنے پہ بھی اب یاد نہیں آتا ہے
پوچھنا پڑتا ہے، میں کون ہوں، تصویروں سے
یوں نہیں ہے کہ فقط تو ہی خفا ہے مجھ سے
خود بھی عاجز ہوں بہت، اپنی ہی تدبیروں سے
مجھ کو معلوم نہیں پڑتا عدو کون ہے تو
میں پتہ پوچھتا رہتا ہوں ترا، تیروں سے
جیتنا ہے تو محبت سے ہرانا ہو گا
لوگ ڈرتے نہیں اب آپ کی شمشیروں سے
دن بدل جائیں گے تیرے جو خدا مل جائے
خود بخود ہاتھ چھڑا لے گا تو ان پیروں سے
وہ تو کہتا ہے کہ آسان زباں ہے میری
ہم نے آسانی کو مشکل کیا تفسیروں سے
آج سب سے بڑے ناقد ہیں وہی لوگ مرے
جن کو تحریک ملی تھی مری تحریروں سے