اس محبت میں یہی آزار تھا
جو کیا جتنا کیا بے کار تھا

خواب تھا میرا کہ میں بیدار تھا
آپ آئے ، فیصلہ دشوار تھا

چاند تارے توڑ بھی لائے مگر
اس کو اب کچھ اور ہی درکار تھا

آنکھ کو بھاتے ہیں چہرے اور بھی
دل مرا پر صاحبِ کردار تھا

روتے روتے کیا بچھڑنا، ہنس دیے
ہم سے کب یہ پہلی پہلی بار تھا

خود کو اچھا کیسے کہہ دوں میں بھلا
آخرش میرا بھی اک معیار تھا

ایک جملے میں خلاصہ زیست کا
تخت جانا تھا جسے وہ دار تھا