ہم پر نہیں اب ان کی نظر دیکھ رہے ہیں
دیکھا نہیں جاتا ہے مگر دیکھ رہے ہیں
تھے گھر میں تو بیزار تھے گھر بار سے اپنے
راہوں میں نکل آئے تو گھر دیکھ رہے ہیں
ہم پیروں کے چھالوں سے چراتے ہوئے نظریں
ہاتھوں کی لکیروں میں سفر دیکھ رہے ہیں
بھرتے ہیں جہاں زخم تو لے آتی ہے تازہ
ہم چارہ گری تیرے ہنر دیکھ رہے ہیں
سمجھے تھے محبت میں کہ دستار سجے گی
کر بیٹھے تو کٹتے ہوئے سر دیکھ رہے ہیں
دنیا نے سبق اتنے سکھانے ہیں کہ اب ہم
الفاظ نہیں لہجہ ، نظر دیکھ رہے ہیں
اپنوں کی عطا دھوپ میں جھلسائے ہوئے ہم
اغیار کے آنگن میں شجر دیکھ رہے ہیں
لے دے کے جہاں میں فقط آئینے بچے ہیں
ہم جیسوں کو جو بارِ دگر دیکھ رہے ہیں
دستک کی تمنا لئے اک عمر سے ابرک
دیواروں کے اس شہر میں در دیکھ رہے ہیں
جس سمت نہیں ہم، وہ ادھر دیکھ رہے ہیں
ہم بدلے ہوئے شام و سحر دیکھ رہے ہیں