ہم کو سولی پہ چڑھانا ہے چلے جانا ہے
تو نے بس ہاتھ چھڑانا ہے چلے جانا ہے
عمر بھر آنکھ میں انگار بھرے گا میری
تو نے تو خواب دکھانا ہے، چلے جانا ہے
کوئی تفصیل، دلاسہ نہیں، تاویل نہیں
فیصلہ تو نے سنانا ہے چلے جانا ہے
مجھ کو معلوم تھا تجدیدِ وفا کرتے ہوئے
تو نے کل پھر سے رلانا ہے چلے جانا ہے
میں کہانی تو نہیں ہوں کہ سدا رہ جاؤں
میں نے کردار نبھانا ہے چلے جانا یے
لوگ اس وہم میں آتے ہیں تری دنیا میں
چار دن ہنسنا ہنسانا ہے چلے جانا ہے
زیست اب اور کوئی کام نہیں ہے باقی
بس ترا سوگ منانا ہے چلے جانا ہے
ہم جو ٹھہرے ہیں یہاں ٹھہرے ہیں ابرک کے لئے
اپنا تو اور زمانہ ہے چلے جانا ہے