درگزر میری ہر خطا کر دے
بے سکوں ہوں سکوں عطا کر دے

میرے لب پر وہی دعا کر دے
جو معطل مری سزا کردے

بند کر دے ہر ایک در مجھ پر
اس طرح خود سے آشنا کر دے

اپنی خواہش کا ہوں ستایا ہوا
اپنی چاہت سا پھر نیا کر دے

جو نہ بھولے کبھی تجھے اک پل
حافظہ وہ مجھے عطا کر دے

سارا عالم ہے سر جھکائے ہوئے
لا دوا ہے مرض دوا کر دے

وہ نہ چاہے تو پھر بتا ابرک
کون ہے جو ترا بھلا کر دے