بہاریں گم ہیں ، مسلسل خزاں کا موسم ہے
کسی کے بس میں بھلا کب یہاں کا موسم ہے
وہ اور لوگ ہیں موسم بدلتے ہیں جن کے
یہاں تو مستقل اشکِ رواں کا موسم ہے
میں آنکھ، کان، زباں پر یقیں کروں کیسے
میں دل ہوں دل میں فقط اک گماں کا موسم ہے
خدا کے حکم کے برعکس ہے نظام یہاں
خفا یونہی تو نہیں آسماں کا موسم ہے
خدا خدا ہے، خدا دے کے لے بھی سکتا ہے
سو آج کل یہاں آہ و فغاں کا موسم ہے
یہ ٹھیک ہے کہ مقدر بھی دخل رکھتا ہے
ترے ہی ہاتھ تری داستاں کا موسم ہے
بھلا اتارے کوئی کیسے کاغذوں میں اسے
وہ چہرہ چہرہ نہیں گلستاں کا موسم ہے
عبث ہے بونا محبت کہ دل ہی بنجر ہیں
جہاں کی سوچ میں تیر و کماں کا موسم ہے
وہ حال پوچھے یہاں کا تو یہ بتا دینا
جہاں پہ تو ہی نہیں، کیا وہاں کا موسم ہے
یہ بات ٹھیک نہیں ہے کہ آج کل ابرک
ترے لکھے میں بھی سود و زیاں کا موسم ہے