وہی ہے غیر جو محرم ہے کیا کیا جائے
ہوا کے دوش پہ پرچم ہے کیا کیا جائے
ہم اپنے ظلم کی فریاد لے کے آئے تھے
تمہارا اپنا ہی ماتم ہے کیا کیا جائے
یہ کس چراغ نے مشکل میں ڈال دی ہے ہوا
نہ بجھ رہا ہے نہ مدھم ہے کیا کیا جائے
ہمارے خون کی اوقات ہی نہیں کوئی
ترا لعاب بھی زم زم ہے کیا کیا جائے
Tag: poetrycollection (Page 9 of 31)
بتا دیا ہے تجھے ‘ یہ سماں نہیں ہونا
نظر ہٹائی تو ہم نے یہاں نہیں ہونا
تجھے سمجھنا پڑے گا بہاؤ کا مسلک
جو آب شار ہے اُس نے کنواں نہیں ہونا
مجھے سراب کِیا ہے تو کر نظارہ بھی
کہ ایسی رَیت نے پھر یوں رواں نہیں ہونا
اسی یقین میں ہر ایک ہو گیا معدوم
کہ میں نہیں ہوں وہ ، جس کا نشاں نہیں ہونا
ہم اپنی تَہہ میں بھڑکتے ہوئے سمجھتے ہیں
کہ اِس الاؤ نے شاید دھواں نہیں ہونا
ترا شمار بڑھانے کو صفر ہو جاؤں
مجھے بس اتنا بتا دے کہاں نہیں ہونا
الگ قرینہء صَوت و صدا ہے ہر پَل کا
نواے نیم شبی نے اذاں نہیں ہونا
میں چل رہا تھا ترے ساتھ کس یقین کے ساتھ
ترا بھی رابطہ نکلا منافقین کے ساتھ
ہر ایک رند کی حیرت تھی دیکھنے والی
شریف زادوں کو دیکھا جو بد ترین کے ساتھ
جب آسمان پہ جوڑے بنائے جا رہے تھے
تو خال خال حسیں تھا کسی حسین کے ساتھ
جو سادہ دل ہیں وہی دل کو راس آتے ہیں
میں عشق کر نہیں سکتا کسی ذہین کے ساتھ
تمام شہر نے جھوٹی خبر کو مان لیا
صغیر دیکھا گیا ایک مہ جبین کے ساتھ
اُس کے نزدیک غمِ ترکِ وفا کچھ بھی نہیں
مطمئن ایسا ہے وہ جیسے کہ ہوا کچھ بھی نہیں
اب تو ہاتھوں سے لکیریں بھی مٹی جاتی ہیں
اُس کو کھو کر تو میرے پاس رہا کچھ بھی نہیں
کل بچھڑنا ہے تو پھر عہدِ وفا سوچ کے باندھ
ابھی آغازِ محبت ہے گیا کچھ بھی نہیں
میں تو اس واسطے چپ ہوں کہ تماشہ نہ بنے
تو سمجھتا ہے مجھے تجھ سے گلہ کچھ بھی نہیں
اے شمار آنکھیں اسی طرح بچھائے رکھنا
جانے کس وقت وہ آ جائے پتہ کچھ بھی نہیں
دھرتی چٹخ رہی ہے جو پانی کے باوجود
کچھ تو رُکا ہُوا ہے روانی کے باوجود
اے نخلِ نو بہار تیرے ساتھ کیا ہُوا
شانے جھکے ہوئے ہیں جوانی کے باوجود
ہم صنعتِ تضاد کی زندہ مثال ہیں
ہنسنا پڑا ہے اشک فشانی کے باوجود
یہ دورِ داستان فروشاں ہے سو یہاں
چلتی نہیں ہے بات کہانی کے باوجود
نقصان تو کرے گی یہ عُجلت کی پختگی
لفظوں میں رَس نہ ہو گا معانی کے باوجود
ہم نے جڑوں سے پیار کیا اور جُڑے رہے
اب تک ہرے ہیں عُمر خزانی کے باوجود
وہی کلام کرے جس کو گفتگو آئے
سخن شناس ہے کوئی تو روبرو آئے
ہم اپنا دل لیے بیٹھے ہیں بام پر بے بس
وہ جن کے پاس تھے پیسے وہ چاند چھو آئے
دئیے بجھائے ہواؤں نے توڑ دی مینا
برس چکی جو گھٹائیں تو ہم سبو آئے
ابھی سے پھر لیے جاتے ہو کوئے دلبر میں
ابھی تو یار لٹا کر ہیں آبرو آئے
اسی اجاڑ اندھیرا بھرے مکاں میں حسن
میں چاند رات سجاؤں جو یار تو آئے
لے گیا روح ، بدن چھوڑ گیا
خواب آنکھوں میں کفن چھوڑ گیا
ہم کو مشکل میں مگن چھوڑ گیا
دل بھی اب تیری لگن چھوڑ گیا
دوست آیا تھا تُو تو میرے لئے
تُو تو اپنی بھی تھکن چھوڑ گیا
پہلے مہکا کوئی خوشبو کی طرح
پھر وہ سانسوں میں گھٹن چھوڑ گیا
ہم پرندوں پہ تھی ہجرت لازم
جب شجر ہی وہ چمن چھوڑ گیا
پھر وفا کا سکھا کے ہم کو چلن
خود وہ کم ظرف یہ فن چھوڑ گیا
دور حدِ نظر سے آگے کہیں
زندگی اب بھی مسکراتی ہے
اب بھی سورج کی ہے وہی عادت
گھر کے آنگن کو وہ جگاتا ہے
مرمریں شوخ سی حسیں کرنیں
چہرے سب چوم کر اٹھاتی ہیں
وہاں صبحیں بڑی توانا ہیں
اور سب دن بھی خوب دانا ہیں
منہ اندھیرے سفر کو جاتے ہیں
روز پھر گھر میں شام ہوتی ہے
وہی برگد تلے کی ہیں شامیں
ایک حقہ تو ہیں کئی سامع
اب بھی فکریں گلی محلے کی
باتوں باتوں میں ختم ہوتی ہیں
وہی بچوں کا ہے حسیں بچپن
جگنو, تتلی کی ہے وہی ان بن
وہی جھریوں سی پیاری نانی ہے
وہی پریوں کى اک کہانی ہے
سبھی موسم وہاں نشیلے ہیں
وہی قوسِ قزح کے جھولے ہیں
وہاں بارش کی مستیاں اب تک
ٹین کی چھت پہ گنگناتی ہیں
ہے سخن باکمال لوگوں کا
میٹھا پن لازوال لہجوں کا
سچ ہے جذبوں کی روح میں شامل
واں محبت نہ آزماتی ہے
وہاں باقی ہے دوستی کا مان
اور رشتوں میں جان باقی ہے
اب بھی جنت ہے ماں کے قدموں میں
اب بھی ماں لوریاں سناتی ہے
خوشبویں مٹیوں میں زندہ ہیں
عکس بھی پانیوں میں ہیں باقی
اب بھی تاروں کے سنگ راتوں کو
چاندنی محفلیں سجاتی ہے
اب بھی راتوں کو چاند کی سکھیاں
اپنے چندا سے ملنے جاتی ہیں
اور کھڑے دور ایک سائے کو
اپنی سب دھڑکنیں سناتی ہیں
اب تلک امن فاصلوں میں ہے
جشن بھرپور قافلوں میں ہے
گھر کو سب لوٹتے مسافر ہیں
ان کی یادیں نہیں ستاتی ہیں
چلو ہم بھی وہیں پہ چلتے ہیں
دل جہاں آج بھی دھڑکتے ہیں
جہاں اب تک یہ وقت ساکن ہے
زندگی اب بھی مسکراتی ہے
دور حدِ نظر سے آگے کہیں
زندگی اب بھی مسکراتی ہے