یار بھی راہ کی دیوار سمجھتے ہیں مجھے
میں سمجھتا تھا مرے یار سمجھتے ہیں مجھے
جڑ اکھڑنے سے جھکاؤ ہے مری شاخوں میں
دور سے لوگ ثمر بار سمجھتے ہیں مجھے
کیا خبر کل یہی تابوت مرا بن جائے
آپ جس تخت کا حق دار سمجھتے ہیں مجھے
نیک لوگوں میں مجھے نیک گنا جاتا ہے
اور گنہ گار گنہ گار سمجھتے ہیں مجھے
میں تو خود بکنے کو بازار میں آیا ہوا ہوں
اور دکاں دار خریدار سمجھتے ہیں مجھے
میں بدلتے ہوئے حالات میں ڈھل جاتا ہوں
دیکھنے والے اداکار سمجھتے ہیں مجھے
وہ جو اس پار ہیں اس پار مجھے جانتے ہیں
یہ جو اس پار ہیں اس پار سمجھتے ہیں مجھے
میں تو یوں چپ ہوں کہ اندر سے بہت خالی ہوں
اور یہ لوگ پر اسرار سمجھتے ہیں مجھے
روشنی بانٹتا ہوں سرحدوں کے پار بھی میں
ہم وطن اس لیے غدار سمجھتے ہیں مجھے
جرم یہ ہے کہ ان اندھوں میں ہوں آنکھوں والا
اور سزا یہ ہے کہ سردار سمجھتے ہیں مجھے
لاش کی طرح سر آب ہوں میں اور شاہدؔ
ڈوبنے والے مددگار سمجھتے ہیں مجھے
Tag: poetrycollection (Page 9 of 24)
اپنی تصویر کو رکھ کر تیری تصویر کے ساتھ
میں نے یہ عمر گزاری بڑی تدبیر کے ساتھ
ہو گیا دفن یہ قصہ بھی جہانگیر کے ساتھ
اب کہاں عدل کا رشتہ رہا زنجیر کے ساتھ
جس کو میں اپنا بناتا ہوں ، بچھڑ جاتا ہے
میری بنتی ہی نہیں ، کاتب تقدیر کے ساتھ
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
نے آبلہ مسجد ہوں، نہ تہذیب کا فرزند
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں، بیگانے بھی نا خوش
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
مشکل ہے کہ اک بندہ حق بین و حق اندیش
خاشاک کے تودے کو کہے کوہ دماوند
ہوں آتش نمرود کے شعلوں میں بھی خاموش
میں بندہ مومن ہوں، نہیں دانہ اسپند
پر سوز و نظر باز و نکوبین و کم آزار
آزاد و گرفتار و تہی کیسہ و خورسند
ہر حال میں میرا دل بے قید ہے خرم
کیا چھینے گا غنچے سے کوئی ذوق شکر خند
چپ رہ نہ سکا حضرت یزداں میں بھی اقبال
کرتا کوئی اس بندہ گستاخ کا منہ بند
زندگی پُھول ہے، خوشبو ہے، مگر یاد رہے
زندگی، گردشِ حالات بھی ہو سکتی ہے
چال چلتے ہُوئے، شطرنج کی بازی کے اُصول
بُھول جاؤ گے، تو پھر مات بھی ہوسکتی ہے
ایک تو چھت کے بِنا گھر ہے ہمارا مُحسؔن
اُس پہ یہ خوف کہ برسات بھی ہو سکتی ہے
Sab jurm meri zaat sey mansoob hain Muhsin,
Kya merey siwa shehr mein masoom hain sarey…
سب جرم میری ذات سے منسوب ہیں محسن
کیا میرے سوا شہر میں معصوم ہیں سارے
Khak ho key reh gayi barson ki riyazat,
Mujh ko bigar dala teri nazar kharab ney…
خاک ہو کے رہ گئی برسوں کی ریاضت
مجھ کو بگاڑ ڈالا تیری نظر خراب نے
Tijarat ki garz sey bacha gareeb ka,
Khawab bechney aaya tha khilono ki chah mein…
تجارت کی غرض سے بچا غریب کا
خواب بیچنے آیا تھا کھلونوں کی چاہ میں
Mujhey ak gali mein para hua kisi badnaseeb ka khat mila,
Kahin khoon-e-dil sey likha hua kahin anso’un sey mita hua …
مجھے اک گلی میں پڑا ہوا کسی بد نصیب کا خط ملا
کہیں خون دل سے لکھا ہوا کہیں آنسوؤں سے مٹا ہوا
اپنی پلکوں پہ جمی گرد کا حاصل مانگے
وہ مسافر ہوں جو ہر موڑ پہ منزل مانگے
.
میری وسعت کی طلب نے مجھے محدود کیا
میں وہ دریا ہوں جو موجوں سے بھی ساحل مانگے
.
خواہش وصل کو سو رنگ کے مفہوم دئیے
بات آساں تھی مگر لفظ تو مشکل مانگے
.
دل کی ضد پر نہ خفا ہو میرے افلاک نشیں
دل تو پانی سے بھی عکس ماہ کامل مانگے
.
سانس میری تھی مگر اس سے طلب کی محسن
جیسے خیرات سخی سے کوئی سائل مانگے
.
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا
کبھی تو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا
کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیر نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا
رگ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا
جسے غم سمجھ رہے ہو یہ اگر شرار ہوتا
غم اگرچہ جاں گسل ہے پہ کہاں بچیں کہ دل ہے
غم عشق گر نہ ہوتا غم روزگار ہوتا
کہوں کس سے میں کہ کیا ہے شب غم بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا
ہوئے مر کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا
نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا
اسے کون دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا
جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دو چار ہوتا
یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالبؔ
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا