Pehle to uss ne gham ke fawaid kiye bayan,
Phir waqfa le ke kehne laga, Khush raha karo…
پہلے تو اس نے غم کے فوائد کئے بیان
پھر وقفہ لے کے کہنے لگا ، خوش رہا کرو
چھوڑ جانے کا سبب بھی نہ بتایا جائے
اب جِسے جانا ہے وہ شوق سے ، ہاہا جائے
کس قدر تلخ رویے سہے ہم نے چپ چاپ
کتنی کوشش تھی کہ رشتوں کو بچایا جائے
اس نے رکھا ہی نہیں اپنی رفاقت کا بھرم
ہم نے چاہا تھا اُسے ٹوٹ کے چاہا جائے
وہ بھی کیا لوگ ہیں ملتی ہے پذیرائی جنہیں
ہم کو حسرت ہی رہی ہم کو سراہا جائے
کہہ رہا تھا کوئی آ کر کہ اُسے جانا ہے
ہم نے بھی کہہ دیا جانا ہے تو اچھا جائے
اپنی عادت ہے بکھر کر خود ہی یکجا ہونا
اب تو خواہش ہی نہیں ہے کہ سنبھالا جائے
اے خُدا یا تو مجھے سونپ دیا جائے وہ
یا مرے دل سے اِسی وقت نکالا جائے
جتنا پیارا خود ہے اُتنی پیاری اُس کی سوچ ہے
اُف وہ اتنا خوبصورت ہے کہ تیری سوچ ہے
نسلِ نَو کے شاعروں کو ہلکا پُھلکا مت سمجھ
جتنی سادہ شاعری ہے اُتنی گہری سوچ ہے
اختلافِ رائے کا مطلب عداوت تو نہیں
تیری اپنی سوچ ہے اور میری اپنی سوچ ہے
اُس کو چُھو لینا تو ہے اچھے نصیبوں والی بات
ویسے اُس کو سوچتے رہنا بھی اچھی سوچ ہے
اپنی رائے دینے سے کافر مَیں کیسے ہوگیا ؟
مجھ کو رکھنے دیجیے جو میری ذاتی سوچ ہے
اس محبت میں یہی آزار تھا
جو کیا جتنا کیا بے کار تھا
خواب تھا میرا کہ میں بیدار تھا
آپ آئے ، فیصلہ دشوار تھا
چاند تارے توڑ بھی لائے مگر
اس کو اب کچھ اور ہی درکار تھا
آنکھ کو بھاتے ہیں چہرے اور بھی
دل مرا پر صاحبِ کردار تھا
روتے روتے کیا بچھڑنا، ہنس دیے
ہم سے کب یہ پہلی پہلی بار تھا
خود کو اچھا کیسے کہہ دوں میں بھلا
آخرش میرا بھی اک معیار تھا
ایک جملے میں خلاصہ زیست کا
تخت جانا تھا جسے وہ دار تھا
درگزر میری ہر خطا کر دے
بے سکوں ہوں سکوں عطا کر دے
میرے لب پر وہی دعا کر دے
جو معطل مری سزا کردے
بند کر دے ہر ایک در مجھ پر
اس طرح خود سے آشنا کر دے
اپنی خواہش کا ہوں ستایا ہوا
اپنی چاہت سا پھر نیا کر دے
جو نہ بھولے کبھی تجھے اک پل
حافظہ وہ مجھے عطا کر دے
سارا عالم ہے سر جھکائے ہوئے
لا دوا ہے مرض دوا کر دے
وہ نہ چاہے تو پھر بتا ابرک
کون ہے جو ترا بھلا کر دے
سر یہ ہر حال جھکا ، ہم نے قناعت کی تھی
اک تری بار ہی بس رب سے شکایت کی تھی
اِس قدر سخت سزا بھی تو نہیں بنتی تھی
ہم نے بچپن سے نکلنے کی شرارت کی تھی
ہوش والوں کی نہ باتوں میں ہمی آئے کبھی
ورنہ ہر اک نے سنبھلنے کی ہدایت کی تھی
معتبر تھے کبھی دنیا کی نظر میں ہم بھی
پھر ہوا یوں کہ مری تم نے حمایت کی تھی
ہم نے مانا کہ چلو مرکزی مجرم ہم ہیں
کچھ دنوں تم نے بھی تو ہم سے محبت کی تھی
بے وفاوں سے وفا خبط ہے لا حاصل سا
ہمیں معلوم تھا پھر بھی یہ حماقت کی تھی
نفع نقصان کی باتیں نہیں جچتی ہم کو
ہم نے کب یار ترے ساتھ تجارت کی تھی
مبتلا تازہ ہے تو، خوش ہے محبت سے تو سُن
اس نے آغاز میں ہم پر بھی عنایت کی تھی
کیوں زبانوں پہ فقط نام ترا ہے ابرک
تم سے پہلے بھی تو کتنوں نے بغاوت کی تھی
© 2025 EAGLE SITE
Theme by Anders Noren — Up ↑