تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا
کوئی ٹھہرا ہو جو لوگوں کے مقابل تو بتاؤ
وہ کہاں ہیں کہ جنہیں ناز بہت اپنے تئیں تھا
آج سوئے ہیں تہ خاک نہ جانے یہاں کتنے
کوئی شعلہ کوئی شبنم کوئی مہتاب جبیں تھا
اب وہ پھرتے ہیں اسی شہر میں تنہا لیے دل کو
اک زمانے میں مزاج ان کا سر عرش بریں تھا
چھوڑنا گھر کا ہمیں یاد ہے جالبؔ نہیں بھولے
تھا وطن ذہن میں اپنے کوئی زنداں تو نہیں تھا
Tag: poetrycollection (Page 5 of 24)
کیا عشق تھا جو باعثِ رسوائی بن گیا
یارو تمام شہر تماشائی بن گیا
بن مانگے مل گئے مری آنکھوں کو رت جگے
میں جب سے ایک چاند کا شیدائی بن گیا
دیکھا جو اس کا دستِ حنائی قریب سے
احساس گونجتی ہوئی شہنائی بن گیا
برہم ہوا تھا میری کسی بات پر کوئی
وہ حادثہ ہی وجہِ شناسائی بن گیا
پایا نہ جب کسی میں بھی آوارگی کا شوق
صحرا سمٹ کے گوشہ تنہائی بن گیا
تھا بے قرار وہ مرے آنے سے پیشتر
دیکھا مجھے تو پیکرِ دانائی بن گیا
کرتا رہا جو روز مجھے اس سے بدگماں
وہ شخص بھی اب اس کا تمنائی بن گیا
وہ تیری بھی تو پہلی محبت نہ تھی قتیلؔ
پھر کیا ہوا اگر کوئی ہرجائی بن گیا
Kaya ishq Tha Jo Baais-e-Ruswai ban Gaya
Yaaro Tamam Shehar Tamashai Ban Gaya
Bin Mangay Mil Gaye Meri Aankhoun Ko Ratt Jagay
Main jab Say Aik Chaand Ka Shaidai Ban Gaya
Daikha Jo Uska Dast-e-Hinaai Qareeb Say
Ahsaas Goonjti Hui Shehnai Ban Gaya
Barham Hua Tha Meri Kisi Baat per Koi
Woh Haadsa Hi Wajh-e-Shanasai Ban Gaya
Paaya nah Jab Kisi Main Bhi Awaargi Ka Shauq
Sehra Simat K Gosha-e-Tanhai Ban Gaya
Tah Bay Qaraar Woh Mere Aanay Say Paishtar
Daikha Mujhay To Paikr-e-Danai Ban Gaya
Karta Raha Jo Roz Mujhay Us Say Bad’gumaan
Woh Shakhs Bhi Ab Uska Tamannai Ban Gaya
Woh Teri Bhi To Pehli Muhabbat Nah Thi Qateel
Phir Kaya Hua Agar Koi Harjaai Ban Gaya
دل میں اب یوں ترے بھولے ہوئے غم آتے ہیں
جیسے بچھڑے ہوئے کعبہ میں صنم آتے ہیں
ایک اک کر کے ہوئے جاتے ہیں تارے روشن
میری منزل کی طرف تیرے قدم آتے ہیں
رقص مے تیز کرو ساز کی لے تیز کرو
سوئے مے خانہ سفیران حرم آتے ہیں
کچھ ہمیں کو نہیں احسان اٹھانے کا دماغ
وہ تو جب آتے ہیں مائل بہ کرم آتے ہیں
اور کچھ دیر نہ گزرے شب فرقت سے کہو
دل بھی کم دکھتا ہے وہ یاد بھی کم آتے ہیں
کچھ تو ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا ترا خیال بھی
دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی
بات وہ آدھی رات کی رات وہ پورے چاند کی
چاند بھی عین چیت کا اس پہ ترا جمال بھی
سب سے نظر بچا کے وہ مجھ کو کچھ ایسے دیکھتا
ایک دفعہ تو رک گئی گردش ماہ و سال بھی
دل تو چمک سکے گا کیا پھر بھی تراش کے دیکھ لیں
شیشہ گران شہر کے ہاتھ کا یہ کمال بھی
اس کو نہ پا سکے تھے جب دل کا عجیب حال تھا
اب جو پلٹ کے دیکھیے بات تھی کچھ محال بھی
میری طلب تھا ایک شخص وہ جو نہیں ملا تو پھر
ہاتھ دعا سے یوں گرا بھول گیا سوال بھی
اس کی سخن طرازیاں میرے لیے بھی ڈھال تھیں
اس کی ہنسی میں چھپ گیا اپنے غموں کا حال بھی
گاہ قریب شاہ رگ گاہ بعید وہم و خواب
اس کی رفاقتوں میں رات ہجر بھی تھا وصال بھی
اس کے ہی بازوؤں میں اور اس کو ہی سوچتے رہے
جسم کی خواہشوں پہ تھے روح کے اور جال بھی
شام کی نا سمجھ ہوا پوچھ رہی ہے اک پتا
موج ہوائے کوئے یار کچھ تو مرا خیال بھی
یار بھی راہ کی دیوار سمجھتے ہیں مجھے
میں سمجھتا تھا مرے یار سمجھتے ہیں مجھے
جڑ اکھڑنے سے جھکاؤ ہے مری شاخوں میں
دور سے لوگ ثمر بار سمجھتے ہیں مجھے
کیا خبر کل یہی تابوت مرا بن جائے
آپ جس تخت کا حق دار سمجھتے ہیں مجھے
نیک لوگوں میں مجھے نیک گنا جاتا ہے
اور گنہ گار گنہ گار سمجھتے ہیں مجھے
میں تو خود بکنے کو بازار میں آیا ہوا ہوں
اور دکاں دار خریدار سمجھتے ہیں مجھے
میں بدلتے ہوئے حالات میں ڈھل جاتا ہوں
دیکھنے والے اداکار سمجھتے ہیں مجھے
وہ جو اس پار ہیں اس پار مجھے جانتے ہیں
یہ جو اس پار ہیں اس پار سمجھتے ہیں مجھے
میں تو یوں چپ ہوں کہ اندر سے بہت خالی ہوں
اور یہ لوگ پر اسرار سمجھتے ہیں مجھے
روشنی بانٹتا ہوں سرحدوں کے پار بھی میں
ہم وطن اس لیے غدار سمجھتے ہیں مجھے
جرم یہ ہے کہ ان اندھوں میں ہوں آنکھوں والا
اور سزا یہ ہے کہ سردار سمجھتے ہیں مجھے
لاش کی طرح سر آب ہوں میں اور شاہدؔ
ڈوبنے والے مددگار سمجھتے ہیں مجھے
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
نے آبلہ مسجد ہوں، نہ تہذیب کا فرزند
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں، بیگانے بھی نا خوش
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
مشکل ہے کہ اک بندہ حق بین و حق اندیش
خاشاک کے تودے کو کہے کوہ دماوند
ہوں آتش نمرود کے شعلوں میں بھی خاموش
میں بندہ مومن ہوں، نہیں دانہ اسپند
پر سوز و نظر باز و نکوبین و کم آزار
آزاد و گرفتار و تہی کیسہ و خورسند
ہر حال میں میرا دل بے قید ہے خرم
کیا چھینے گا غنچے سے کوئی ذوق شکر خند
چپ رہ نہ سکا حضرت یزداں میں بھی اقبال
کرتا کوئی اس بندہ گستاخ کا منہ بند