زرد ہوتے ہوئے موسم کی نظر جانتا ہوں
چھوڑ جائیں گے پرندے بھی شجر، جانتا ہوں
تو سمجھتا ہے مرا ظرف ، مری نادانی
چپ مروت میں ہوں ہر بات مگر جانتا ہوں
کسی منزل کسی تعبیر کی امید نہیں
خواب تیرا ہے فقط زادِ سفر ، جانتا ہوں
وہ بھی دستک پہ مری کان نہیں دھرتا ہے
میں بھی دنیا میں فقط ایک ہی در جانتا ہوں
ارے قاصد یونہی رنجیدہ پریشان نہ ہو
تو جو لایا ہے خبر ، میں وہ خبر جانتا ہوں
لوٹ آنے پہ ترے جشن ہو برپا کیوں کر
پھر بدل جائے گی کل تیری نظر جانتا ہوں
سر جھکا کر جسے دستار ملے، اس پہ ہے تف
جرم انکار ہو جس کا ، اسے سر جانتا ہوں
میں بھی ہنستا تھا کبھی مجنوں کے افسانوں پر
آج مجنوں کی طرح دشت کو گھر جانتا ہوں
Tag: poetrycollection (Page 14 of 24)
Nigha-e-aib geeri sey jo dekha ahil-e-aalam ko,
Koi kafir,koi fasiq,koi zandiq-e-akbar tha,
Magar jab hogaya dil ahtesab-e-nafs par maail,
Huwa sabit ke har farzand-e-aadam mujh sey behtar tha…
نگاہ عیب گیری سے جو دیکھا اہل عالم کو
کوئی کافر ،کوئی فاسق ،کوئی زندیق اکبر تھا
مگر جب ہوگیا دل احتساب نفس پر مائل
ہوا ثابت کہ ہر فرزند آدم مجھ سے بہتر تھا
ہم پر نہیں اب ان کی نظر دیکھ رہے ہیں
دیکھا نہیں جاتا ہے مگر دیکھ رہے ہیں
تھے گھر میں تو بیزار تھے گھر بار سے اپنے
راہوں میں نکل آئے تو گھر دیکھ رہے ہیں
ہم پیروں کے چھالوں سے چراتے ہوئے نظریں
ہاتھوں کی لکیروں میں سفر دیکھ رہے ہیں
بھرتے ہیں جہاں زخم تو لے آتی ہے تازہ
ہم چارہ گری تیرے ہنر دیکھ رہے ہیں
سمجھے تھے محبت میں کہ دستار سجے گی
کر بیٹھے تو کٹتے ہوئے سر دیکھ رہے ہیں
دنیا نے سبق اتنے سکھانے ہیں کہ اب ہم
الفاظ نہیں لہجہ ، نظر دیکھ رہے ہیں
اپنوں کی عطا دھوپ میں جھلسائے ہوئے ہم
اغیار کے آنگن میں شجر دیکھ رہے ہیں
لے دے کے جہاں میں فقط آئینے بچے ہیں
ہم جیسوں کو جو بارِ دگر دیکھ رہے ہیں
دستک کی تمنا لئے اک عمر سے ابرک
دیواروں کے اس شہر میں در دیکھ رہے ہیں
جس سمت نہیں ہم، وہ ادھر دیکھ رہے ہیں
ہم بدلے ہوئے شام و سحر دیکھ رہے ہیں
در و دیوار تھکتے جا رہے ہیں
شریکِ کار تھکتے جا رہے ہیں
خزاں کے قہقہے بتلا رہے ہیں
گل و گلزار تھکتے جا رہے ہیں
کہانی مختصر کرنا پڑے گی
سبھی کردار تھکتے جا رہے ہیں
کہیں کچھ ہے کمی اس کی تھکن ہے
کہیں انبار تھکتے جا رہے ہیں
گنہ گاروں کو کیا کہئے خدارا
کہ نیکو کار تھکتے جا رہے ہیں
بھنور میں جو ہیں ان کا پوچھئے مت
لگے جو پار تھکتے جا رہے ہیں
ہمیں مارا ہے یارو اس خبر نے
ہمارے یار تھکتے جا رہے ہیں
غمِ جاناں کہ دوراں ، کچھ تو ہوتا
یونہی بے کار تھکتے جا رہے ہیں
خرابی کا مداوا خاک ہو اب
کہ ذمہ دار تھکتے جا رہے ہیں
مقابلے کے نہ ہم دشمنی کے قابل ہیں
حسیں لوگ ہیں بس عاشقی کے قابل ہیں
جو اپنی مرضی کا سوچیں تم ان کو دفنا دو
کہ ایسی لڑکیاں کب رخصتی کے قابل ہیں
دُکھی نہیں ہیں کہ ہم کیوں ہوئے نظر انداز
ہمیں پتہ ہے کہ ہم بے رخی کے قابل ہیں
ہمیں ڈرایا گیا کب سکھایا ڈٹ جانا
ہم ایسے لوگ فقط عاجزی کے قابل ہیں
لڑائی ہم کو وراثت میں دی گئی ہے حضور
ہم اہل جنگ کہاں شاعری کے قابل ہیں
کسی وبا میں خدا مبتلا کرے گا ہمیں
ہم ایسے لوگ کہاں خود کشی کے قابل ہیں