بہاریں گم ہیں ، مسلسل خزاں کا موسم ہے
کسی کے بس میں بھلا کب یہاں کا موسم ہے
وہ اور لوگ ہیں موسم بدلتے ہیں جن کے
یہاں تو مستقل اشکِ رواں کا موسم ہے
میں آنکھ، کان، زباں پر یقیں کروں کیسے
میں دل ہوں دل میں فقط اک گماں کا موسم ہے
خدا کے حکم کے برعکس ہے نظام یہاں
خفا یونہی تو نہیں آسماں کا موسم ہے
خدا خدا ہے، خدا دے کے لے بھی سکتا ہے
سو آج کل یہاں آہ و فغاں کا موسم ہے
یہ ٹھیک ہے کہ مقدر بھی دخل رکھتا ہے
ترے ہی ہاتھ تری داستاں کا موسم ہے
بھلا اتارے کوئی کیسے کاغذوں میں اسے
وہ چہرہ چہرہ نہیں گلستاں کا موسم ہے
عبث ہے بونا محبت کہ دل ہی بنجر ہیں
جہاں کی سوچ میں تیر و کماں کا موسم ہے
وہ حال پوچھے یہاں کا تو یہ بتا دینا
جہاں پہ تو ہی نہیں، کیا وہاں کا موسم ہے
یہ بات ٹھیک نہیں ہے کہ آج کل ابرک
ترے لکھے میں بھی سود و زیاں کا موسم ہے
Tag: poetrycollection (Page 12 of 24)
مانگے بنا ہمیں یہ رعایت بھی ہو گئی
رونا چھپاتے، ہنسنے کی عادت بھی ہو گئی
ویسے تو اس سے پہلے بھی خانہ خراب تھا
پھر یوں ہؤا کہ ہم کو محبت بھی ہو گئی
دیکھا ہے تو نے آئینہ جڑتے ہوئے کبھی
وہ دل ہی کیا کہ جس کی مرمت بھی ہو گئی
اتنا بتا دے کھو کے کسی کو یوں یک بہ یک
پھر پہلے جیسی کیسے طبیعت بھی ہو گئی
تب تک اٹھائے ناز ضرورت تھا جب تلک
پھر ایک روز پوری ضرورت بھی ہو گئی
تا عمر ساتھ چلنے کا وعدہ کیا تھا کل
اور آج تم کو ہم سے شکایت بھی ہو گئی
لوٹا کوئی تو زخم پرانے بھی کھل اٹھے
تجدیدِ بے وفائی کی صورت بھی ہو گئی
کچھ ہاتھ کی لکیروں میں لکھا سبب بنا
کچھ حادثوں کی ہم پہ عنایت بھی ہو گئی
ایسا نہیں کہ جس کے تھے اس کے ہی بس رہے
دو چار بار ہم سے خیانت بھی ہو گئی
نہ جینے کی سہولت ہے نہ مرنے کی اجازت ہے
بہت آسان ہے کہنا، مجھے تم سے محبت ہے
مجھے اُس کی، اُسے اُس کی، اُسے اُس کی ضرورت ہے
سوائے اِس مصیبت کے یہ دنیا خوبصورت ہے
غمِ ہستی ، غمِ بستی ، غمِ دوراں، غمِ ہجراں
اور اس پر بھی دھڑکنا دل کا، ہم کو اس پہ حیرت ہے
کسی کی چپ کا مطلب یہ نہیں، شکوہ نہیں اُس کو
کھلا اعلان ہے یہ تو ، شکایت ہی شکایت ہے
مکر جانا ، بدل جانا ، جفا کرنا ، دغا دینا
یہ سب کچھ آ گیا تجھ کو تو پھر تیری حکومت ہے
نہ اب صیاد ہے حائل نہ میری قید ہے باقی
تو پھر زندان یہ کیونکر ، تو پھر کیسی حراست ہے
کچھ اتنا ڈوب جاتا ہے یہ ابرک ہر کہانی میں
ہر اک کردار کی وحشت لگے اپنی ہی وحشت ہے
خواب دکھلا کے نکل جاتے ہیں تعبیروں سے
ہم بندھے رہتے ہیں خود ساختہ زنجیروں سے
غور کرنے پہ بھی اب یاد نہیں آتا ہے
پوچھنا پڑتا ہے، میں کون ہوں، تصویروں سے
یوں نہیں ہے کہ فقط تو ہی خفا ہے مجھ سے
خود بھی عاجز ہوں بہت، اپنی ہی تدبیروں سے
مجھ کو معلوم نہیں پڑتا عدو کون ہے تو
میں پتہ پوچھتا رہتا ہوں ترا، تیروں سے
جیتنا ہے تو محبت سے ہرانا ہو گا
لوگ ڈرتے نہیں اب آپ کی شمشیروں سے
دن بدل جائیں گے تیرے جو خدا مل جائے
خود بخود ہاتھ چھڑا لے گا تو ان پیروں سے
وہ تو کہتا ہے کہ آسان زباں ہے میری
ہم نے آسانی کو مشکل کیا تفسیروں سے
آج سب سے بڑے ناقد ہیں وہی لوگ مرے
جن کو تحریک ملی تھی مری تحریروں سے
نہ جانے کتنے ٹکڑوں میں بٹا ہوں
میں اپنے ہاتھ سے خود گر پڑا ہوں
گھٹن ، وحشت ہی باقی رہ گئی ہے
میں کب کا خود سے ہجرت کر چکا ہوں
روایت سے نہیں بنتی ہے میری
خطا میری ہے میں کیوں سوچتا ہوں
مٹانے کو مجھے سب مر رہے ہیں
سو یہ تو طے ہؤا سب سے بڑا ہوں
تمہارے مشوروں سے لگ رہا ہے
میں دنیا میں اکیلا رہ گیا ہوں
یہی اک حل سمجھ آیا تھا مجھ کو
خفا تجھ سے تھا خود سے لڑ پڑا ہوں
کوئی آئے بٹائے ہاتھ میرا
میں اپنے بوجھ سے تھکنے لگا ہوں
مقابل زیر کر بیٹھا تو دیکھا
اب اپنے سامنے میں خود کھڑا ہوں
رہتا ہے ساتھ ساتھ وہ جانے کے بعد بھی
ملبہ وہیں پڑا ہے اٹھانے کے بعد بھی
سمجھے تھے ہم کہ آخری دشواریاں ہیں یہ
اک اور تھا زمانہ ، زمانے کے بعد بھی
کر ہجر میں شمار اسے وصل میں نہ لکھ
آیا نہ اب کی بار وہ آنے کے بعد بھی
مجھ سے زیادہ حافظہ ہے مبتلا مرا
پڑھتا ہے تیرے خط یہ جلانے کے بعد بھی
اب پیرِ تسمہ پا سے نہیں کم یہ زندگی
جو بچ گئی ہے تجھ پہ لٹانے کے بعد بھی
یوں کارِ عشق فرق ہے کارِ جہان سے
بڑھتا ہے بوجھ اور گھٹانے کے بعد بھی
تقدیر سے انہیں بھی گلہ ہے، عجیب ہے
ملتے نہیں جو لوگ ملانے کے بعد بھی
شاید رواج ہی نہیں ابرک یہاں رہا
رسوا ہوں کیوں وگرنہ نبھانے کے بعد بھی
ایسی سیاہ رات سے ہے واسطہ پڑا
روشن ہؤا دیا نہ جلانے کے بعد بھی
اکتا گیا ہے اک ہی مشقت سے دل مرا
لگتا نہیں ہے اب یہ لگانے کے بعد بھی