Heeran hoon ke aik bhi ghawahi na mil saki,
Halanke aik hujoom mein maara gaya mujhe
حیران ہوں کہ ایک بھی گواہی نہ مل سکی
حالانکہ ایک ہجوم میں مارا گیا مجھے
لگا کے کاندھے سے ہم کو رلانے والا نہیں
جو کہہ گیا ہے کہ آئے گا آنے والا نہیں
گزارا کرنا پڑے گا ہمارے دل میں تمہیں
یہاں جو پہلے سے رہتا ہے جانے والا نہیں
وہ کوئی اور تعلق بنانے بیٹھ گیا
میں اٹھ گیا کہ نہیں، گر پرانے والا نہیں
ہمارے ساتھ شبِ غم گزارنی ہو گی
ہمارا قصہ سرِ رہ سنانے والا نہیں
میں اپنی راہ کو گھر سے بتا کے چلتا ہوں
میں حادثہ ہوں تجھے راس آنے والا نہیں
کچھ اس لئے بھی ہے یاروں سے جی اچاٹ مرا
کہ ان میں عیب کوئی اب پرانے والا نہیں
تو دیکھ سوجھی حفاظت کی کس جگہ ہم کو
بچا ہی پاس جہاں کچھ بچانے والا نہیں
وگرنہ کب کا میں ناراض ہو چکا ہوتا
تمہارے بعد کوئی اب منانے والا نہیں
دعائے خیر ہو ابرک ، ترا خدا حافظ
تو کچھ بھی کر لے تجھے ہوش آنے والا نہیں
بہاریں گم ہیں ، مسلسل خزاں کا موسم ہے
کسی کے بس میں بھلا کب یہاں کا موسم ہے
وہ اور لوگ ہیں موسم بدلتے ہیں جن کے
یہاں تو مستقل اشکِ رواں کا موسم ہے
میں آنکھ، کان، زباں پر یقیں کروں کیسے
میں دل ہوں دل میں فقط اک گماں کا موسم ہے
خدا کے حکم کے برعکس ہے نظام یہاں
خفا یونہی تو نہیں آسماں کا موسم ہے
خدا خدا ہے، خدا دے کے لے بھی سکتا ہے
سو آج کل یہاں آہ و فغاں کا موسم ہے
یہ ٹھیک ہے کہ مقدر بھی دخل رکھتا ہے
ترے ہی ہاتھ تری داستاں کا موسم ہے
بھلا اتارے کوئی کیسے کاغذوں میں اسے
وہ چہرہ چہرہ نہیں گلستاں کا موسم ہے
عبث ہے بونا محبت کہ دل ہی بنجر ہیں
جہاں کی سوچ میں تیر و کماں کا موسم ہے
وہ حال پوچھے یہاں کا تو یہ بتا دینا
جہاں پہ تو ہی نہیں، کیا وہاں کا موسم ہے
یہ بات ٹھیک نہیں ہے کہ آج کل ابرک
ترے لکھے میں بھی سود و زیاں کا موسم ہے
© 2025 EAGLE SITE
Theme by Anders Noren — Up ↑