Tag: poetrycollection (Page 10 of 24)

JUNOON MEIN SHOQ KI GHERAIYUN SE DARTA RAHA

جُنوں میں شوق کی گہرائیوں سے ڈرتا رہا
میں اپنی ذات کی سچّائیوں سے ڈرتا رہا
محبّتوں سے شناسا ہُوا میں جس دن سے
پھر اُس کے بعد شناسائیوں سے ڈرتا رہا
وہ چاہتا تھا کہ تنہا مِلوں، تو بات کرے !
میں کیا کروں کہ میں تنہائیوں سے ڈرتا رہا
میں ریگزار تھا، مجھ میں بسے تھے سنّاٹے
اِسی لئے تو میں شہنائیوں سے ڈرتا رہا
میں اپنے باپ کا یوسف تھا، اِس لئے مُحسن
سُکوں سے سو نہ سکا، بھائیوں سے ڈرتا رہا


HATA KAR JHOOT SE PARDA SADAQAT KON LIKHE GA

ہٹا کر جھوٹ سے پردہ صداقت کون لکھے گا
اگر ہم بھی چھپائیں تو حقیقت کون لکھے گا
اگر تم جھوٹ، رشوت اور مکاری سے جیتو گے
تو پھر ایسی سیاست کو سیاست کون لکھے گا
بہائے کتنے تو نے خون تخت و تاج کی خاطر
نبھائی تُو نے کس کس سے عداوت کون لکھے گا
قصیدے شاہ کے لکھنے میں جب مصروف ہوں سارے
تو پھر بھوکی رعایا کی شکایت کون لکھے گا
کہانی ظلم کی ہر شخص کو معلوم ہے لیکن
کرے گا کون پر لکھنے کی جرات، کون لکھے گا
یہ مانا شاعری تو خوب لکھتا ہے مگر تیرے
فنِ تحریر کو فہم و فراست کون لکھے گا
یہاں ہر شخص ہی مصروف ہے پیسے کمانے میں
حقیقت میں تو سچ لکھنا ہے دولت کون لکھے گا
تمہاری وجہِ شہرت تو فقط ہے خوف اے ظالم
تمہارا نام دنیا میں محبت کون لکھے گا
اگر ہر بار گھبراوگے تم حق بات کہنے سے
تمہاری بزدلی کو پھر شرافت کون لکھے گا
جہاں انسان کی اپنی کوئی قیمت نہیں
وہاں انسان کے جذبوں کی قیمت کون لکھے گا


TU SHAHEEN HAI PARWAAZ HAI KAM TERA

تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے، بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں


HAZARON KHUWAISHEIN AESI KE HAR KHUWAISH PE DAM NIKLE

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
ڈرے کیوں میرا قاتل؟ کیا رہے گا اُس کی گردن پر
وہ خوں، جو چشم تر سے عمر بھر یوں دم بہ دم نکلے؟
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بے آبرُو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے
بھرم کھل جائے ظالم تیرے قامت کی درازی کا
اگر اس طرۂ پرپیچ و خم کا پیچ و خم نکلے
مگر لکھوائے کوئی اُس کو خط تو ہم سے لکھوائے
ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے
ہوئی اِس دور میں منسُوب مُجھ سے بادہ آشامی
پھر آیا وہ زمانہ جو جہاں میں جامِ جم نکلے
ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستۂ تیغِ سِتم نکلے
ذرا کر زور سینے پر کہ تیر پُرسِتم نکلے
جو وہ نکلے تو دل نکلے، جو دل نکلے تو دم نکلے
کہاں میخانے کا دروازہ غالب! اور کہاں واعظ
پر اِتنا جانتے ہیں، کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے​


WO WAHAN MEHFIL AGYAAR KIYE BETHE HAIN

وہ وہاں محفلِ اغیار کئے بیٹھے ہیں
ہم یہاں دشت کو بیزار کئے بیٹھے ہیں

وہ جو کہتے تھے محبت ہے محبت تم سے
آج اس جرم سے انکار کئے بیٹھے ہیں

زندگی ویسے تو کچھ دور نہیں ہے ہم سے
بیچ رستے میں وہ دیوار کئے بیٹھے ہیں

کہہ گیا تھا وہ کہ خوابوں سے نکالو ہم کو
خود کو تعمیل میں بیدار کئے بیٹھے ہیں

اک طرف ہم سے کہیں ہم سے کنارہ کیجے
اک طرف دل میں گرفتار کئے بیٹھے ہیں

پھر بھلا چاند ستاروں سے انہیں کیا لینا
لوگ جو آپ کا دیدار کئے بیٹھے ہیں

ہم تھے سمجھے کہ کوئی خاص کرم ہے ہم پر
ان کے نسخے کئی بیمار کئے بیٹھے ہیں

اک خبر مجھ کو بنا کر مرے سب چارہ گر
خود کو ہر چوک میں اخبار کئے بیٹھے ہیں

ہم کو معلوم کہ انجام ہے رسوائی اب
ضد محبت کی یہ بے کار کئے بیٹھے ہیں

لوگ ابرک ترے شعروں کو بتا کر اپنا
وقت کو اپنا پرستار کئے بیٹھے ہیں


Pehle to uss ne gham ke fawaid…

Pehle to uss ne gham ke fawaid kiye bayan,

Phir waqfa le ke kehne laga, Khush raha karo…

پہلے تو اس نے غم کے فوائد کئے بیان

پھر وقفہ لے کے کہنے لگا ، خوش رہا کرو

Dil ko isi guman mein rakha hai umar bhar…

Dil ko isi guman mein rakha hai umar bhar,

Iss imtehan key baad koi imtehan nahin…

دل کو اسی گمان میں رکھا ہے عمر بھر

اس امتحان کے بعد کوئی امتحان نہیں

To kya hua jo aap ke shumar mein nahin raha…

To kya hua jo aap ke shumar mein nahin raha,

Mein mukhtalif sa shakhs tha hazar mein nahin raha…

تو کیا ہوا جو آپ کے شمار میں نہیں رہا

میں مختلف سا شخص تھا ہزار میں نہیں رہا

Sar hi ab phorain nidamat mein…

Sar hi ab phorain nidamat mein,

Neend aane lagi hai furqat mein,

Hain dalilain tere khilaaf magar,

Sochta hoon teri himayat mein…

سر ہی اب پھوڑیں ندامت میں

نیند آنے لگی ہے فرقت میں

ہیں دلیلیں تیرے خلاف مگر

سوچتا ہوں تیری حمایت میں

CHOR JAANE KA SABAB BHI NA BTAYA JAYE

چھوڑ جانے کا سبب بھی نہ بتایا جائے
اب جِسے جانا ہے وہ شوق سے ، ہاہا جائے
کس قدر تلخ رویے سہے ہم نے چپ چاپ
کتنی کوشش تھی کہ رشتوں کو بچایا جائے
اس نے رکھا ہی نہیں اپنی رفاقت کا بھرم
ہم نے چاہا تھا اُسے ٹوٹ کے چاہا جائے
وہ بھی کیا لوگ ہیں ملتی ہے پذیرائی جنہیں
ہم کو حسرت ہی رہی ہم کو سراہا جائے
کہہ رہا تھا کوئی آ کر کہ اُسے جانا ہے
ہم نے بھی کہہ دیا جانا ہے تو اچھا جائے
اپنی عادت ہے بکھر کر خود ہی یکجا ہونا
اب تو خواہش ہی نہیں ہے کہ سنبھالا جائے
اے خُدا یا تو مجھے سونپ دیا جائے وہ
یا مرے دل سے اِسی وقت نکالا جائے


« Older posts Newer posts »