Dilon ki imaaraton mein kahin bandagi nahin
pathar ki masjidon mein khuda dhundhte hen log…
دلوں کی عمارتوں میں کہیں بندگی نہیں
پتھر کی مسجدوں میں خدا ڈھونڈتے ہیں لوگ
Urdu poetry collection
Dilon ki imaaraton mein kahin bandagi nahin
pathar ki masjidon mein khuda dhundhte hen log…
دلوں کی عمارتوں میں کہیں بندگی نہیں
پتھر کی مسجدوں میں خدا ڈھونڈتے ہیں لوگ
Lafz karenge Ishara Jane ka…
Tum Ankhein dekh kar ruk jana…
لفظ کرینگے اشارہ جانے کا
تم آنکھیں دیکھ کر رک جانا
Kuch tum ko bhi aziz hain apney sabhi asool,
kuch hum bhi itafaq sey zidd key mareez hain…
کچھ تم کو بھی عزیز ہیں اپنے سبھی اصول
کچھ ہم بھی اتفاق سے ضد کے مریض ہیں
Aik zarorat teri dheleez pey ley aayi hai,
Waqat aya hai ye kesa meri khudari per…
اک ضرورت تیری دہلیز پہ لے آئی ہے
وقت آیا ہے یہ کیسا میری خودار ی پر
علاوہ میرے ہر اک شخص نور نکلے گا
میں جانتا ہوں مرا ہی قصور نکلے گا
یہ خوب ہم سے زمانے نے ضد لگائی ہے
ہوا نہ میرا جو اس کا ضرور نکلے گا
خبر مجھے تھی یہ رستہ نہیں ہے منزل کا
گمان کب تھا کہ خود سے بھی دور نکلے گا
ہے رہزنوں سے رعایت یہ خاص منصف کی
کہ قافلوں کا ہی لٹ کر قصور نکلے گا
اسی امید پہ اب اور کتنی عمریں جیوں
کہ جینا لازماً اک دن سرور نکلے گا
علاج ڈھونڈا تو ڈھونڈا عجب طبیبوں نے
یہ جان نکلے تو دل کا فتور نکلے گا
ہزار بدلو مگر آئینوں کے بس میں نہیں
یہ عکس میرا یونہی چُور چُور نکلے گا
نشہ ہے عارضی ابرک یہ چاہے جانے کا
تمہارے دل سے بھی جلدی غرور نکلے گا
مرحلے شوق کے دُشوار ہُوا کرتے ہیں
سائے بھی راہ کی دیوار ہُوا کرتے ہیں
وہ جو سچ بولتے رہنے کی قسم کھاتے ہیں
وہ عدالت میں گُنہگار ہُوا کرتے ہیں
صرف ہاتھوں کو نہ دیکھو کبھی آنکھیں بھی پڑھو
کچھ سوالی بڑے خودار ہُوا کرتے ہیں
وہ جو پتھر یونہی رستے میں پڑے رہتے ہیں
اُن کے سینے میں بھی شہکار ہُوا کرتے ہیں
صبح کی پہلی کرن جن کو رُلا دیتی ہے،
وہ ستاروں کے عزادار ہُوا کرتے ہیں
جن کی آنکھوں میں سدا پیاس کے صحرا چمکیں
در حقیقت وہی فنکار ہُوا کرتے ہیں
شرم آتی ہے کہ دُشمن کِسے سمجھیں محسن
دُشمنی کے بھی تو معیار ہُوا کرتے ہیں
Mujh ko paani mein utarney ka ishara kar key,
Jaa chuka chaand samandar sey kinara kar key,
Tajurba aik he aibrat key lye kafi tha,
Mein ney dekha he nahin ishq dobara kar key…
مجھ کو پانی میں اترنے کا اشارہ کر کے
جا چکا چاند سمندر سے کنارہ کر کے
تجربہ ایک ہی عبرت کے لئے کافی تھا
میں نے دیکھا ہی نہیں عشق دوبارہ کر کے .
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں
ورنہ کیا بات کرنا نہیں آتی
کیوں نہ چیخوں کہ یاد کرتے ہیں
میری آواز گر نہیں آتی
داغِ دل گر نظر نہیں آتا
بو بھی اے چارہ گر نہیں آتی
ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی
مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی
موت آتی ہے پر نہیں آتی
کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
Agar tumhe zindagi ki haqeeqat maloom ho jaye…
to beshak tum koi aur saathi na chunoge siwae Allah aur uski muhbat ke…
…اگر تمہیں زندگی کی حقیقت معلوم ہو جائے
…تو بےشک تم کوئی اور ساتھی نہ چنوگے سواۓ الله اور اسکی محبت کے
تسکین نہ ہو جس سے وہ راز بدل ڈالو
جو راز نہ رکھ پائے، ہمراز بدل ڈالو
تم نے بھی سُنی ہو گی بڑی عام کہاوت ہے
انجام کا جو ہو خطرہ ، آغاز بدل ڈالو
پُرسوز دِلوں کو جو مسکان نہ دے پائے
سُر ہی نہ مِلے جس ساز میں ، وہ ساز بدل ڈالو
دشمن کے ارادوں کو ہے ظاہر اگر کرنا
تم کھیل وہی کھیلو ، انداز بدل ڈالو
اے دوست کرو ہمت کچھ دُور سویرا ہے
اگر چاہتے ہو منزل ، تو پرواز بدل ڈالو
© 2024 Eagle Miscellany