بتا دیا ہے تجھے ‘ یہ سماں نہیں ہونا
نظر ہٹائی تو ہم نے یہاں نہیں ہونا
تجھے سمجھنا پڑے گا بہاؤ کا مسلک
جو آب شار ہے اُس نے کنواں نہیں ہونا
مجھے سراب کِیا ہے تو کر نظارہ بھی
کہ ایسی رَیت نے پھر یوں رواں نہیں ہونا
اسی یقین میں ہر ایک ہو گیا معدوم
کہ میں نہیں ہوں وہ ، جس کا نشاں نہیں ہونا
ہم اپنی تَہہ میں بھڑکتے ہوئے سمجھتے ہیں
کہ اِس الاؤ نے شاید دھواں نہیں ہونا
ترا شمار بڑھانے کو صفر ہو جاؤں
مجھے بس اتنا بتا دے کہاں نہیں ہونا
الگ قرینہء صَوت و صدا ہے ہر پَل کا
نواے نیم شبی نے اذاں نہیں ہونا