Author: Admin (Page 20 of 62)

DAR O DEWAR THAKTEY JA RAHEY HAIN

در و دیوار تھکتے جا رہے ہیں
شریکِ کار تھکتے جا رہے ہیں
خزاں کے قہقہے بتلا رہے ہیں
گل و گلزار تھکتے جا رہے ہیں
کہانی مختصر کرنا پڑے گی
سبھی کردار تھکتے جا رہے ہیں
کہیں کچھ ہے کمی اس کی تھکن ہے
کہیں انبار تھکتے جا رہے ہیں
گنہ گاروں کو کیا کہئے خدارا
کہ نیکو کار تھکتے جا رہے ہیں
بھنور میں جو ہیں ان کا پوچھئے مت
لگے جو پار تھکتے جا رہے ہیں
ہمیں مارا ہے یارو اس خبر نے
ہمارے یار تھکتے جا رہے ہیں
غمِ جاناں کہ دوراں ، کچھ تو ہوتا
یونہی بے کار تھکتے جا رہے ہیں
خرابی کا مداوا خاک ہو اب
کہ ذمہ دار تھکتے جا رہے ہیں


MUQABILEY KEY NA HUM DUSHMANI KEY QABIL HAIN..

مقابلے کے نہ ہم دشمنی کے قابل ہیں
حسیں لوگ ہیں بس عاشقی کے قابل ہیں
جو اپنی مرضی کا سوچیں تم ان کو دفنا دو
کہ ایسی لڑکیاں کب رخصتی کے قابل ہیں
دُکھی نہیں ہیں کہ ہم کیوں ہوئے نظر انداز
ہمیں پتہ ہے کہ ہم بے رخی کے قابل ہیں
ہمیں ڈرایا گیا کب سکھایا ڈٹ جانا
ہم ایسے لوگ فقط عاجزی کے قابل ہیں
لڑائی ہم کو وراثت میں دی گئی ہے حضور
ہم اہل جنگ کہاں شاعری کے قابل ہیں
کسی وبا میں خدا مبتلا کرے گا ہمیں
ہم ایسے لوگ کہاں خود کشی کے قابل ہیں


JIS SEY CHAHUN HATH MILAON MERI MARZI…

جس سے چاہوں ہاتھ ملاؤں میری مرضی
پھر آنکھوں سے دھوکا کھاؤں میری مرضی
میرے لفظ ہیں، تم کو کیا تکلیف ہے ان سے
جو بھی لکھوں میں، جس کو سناؤں، میری مرضی
اس کا ہجر منانا ہی جب واجب ٹھہرا
روؤں پیٹوں، ناچوں گاؤں، میری مرضی
تیرے شہر میں اپنی بھی پہچان ہے کافی
کچھ دن ٹھہروں، آؤں جاؤں، میری مرضی
تیری باتیں لوگ سمجھتے ہیں تو سمجھیں
جیسے بھی میں شعر سناؤں، میری مرضی
کون سا تم بھی ساتھ چلے، جس راہ پڑا میں
لوٹ آؤں یا آگے جاؤں، میری مرضی
تم نے اس کا کیا چھوڑا، جو پوچھ رہے ہو
اب میں جیسے دل بہلاؤں، میری مرضی
روح میں زین کوئی ماتم برپا ہے، سو ہے
نوحہ پڑھ لوں، ساز بجاؤں، میری مرضی


FALTU KO JAHAN SAMJHTEY HAIN

فالتو کو جہاں سمجھتے ہیں
ہم جہاں کو کہاں سمجھتے ہیں
جب تلک راکھ ہو نہیں جاتے
آگ کو بھی دھواں سمجھتے ہیں
کام پڑتا ہے جب زمیں سے ہمیں
ہم اسے آسماں سمجھتے ہیں
دوڑ میں زندگی کی لوگوں کو
لوگ، بیساکھیاں سمجھتے ہیں
بے وفا ہر کسی کو کیا کہنا
خود کو چل بدگماں سمجھتے ہیں
ایک ہی جھوٹ تجھ سے بولا تھا
تیری مجبوریاں سمجھتے ہیں
آپ کی چپ سے ہم کو لگتا ہے
آپ چپ کی زباں سمجھتے ہیں
زندگی کی گھٹن میں یادوں کو
ہم کھلی کھڑکیاں سمجھتے ہیں
زندگی کھیل ہے تخیل کا
آئنے پر کہاں سمجھتے ہیں
آپ اپنی مثال ہیں ابرک
دشمنِ جاں کو جاں سمجھتے ہیں


IS LIYE AB MEIN KISI KO NAHIN JAANE DETA…

اس لیے اب میں کسی کو نہیں جانے دیتا
جو مجھے چھوڑ کے جاتے ہیں چلے جاتے ہیں
کب تمہیں عشق پہ مجبور کیا ہے ہم نے
ہم تو بس یاد دلاتے ہیں چلے جاتے ہیں
آپ کو کون تماشائی سمجھتا ہے یہاں
آپ تو آگ لگاتے ہیں چلے جاتے ہیں


UGHTEY HUYE NA RUND LAGEY MAT KHARAB KAR

اُگتے ہوئے نہ روند ، لگے مت خراب کر
تو زرد ہے تو سب کے ہَرے مت خراب کر
اپنی کڑی سے کاٹ خرابی کا سلسلہ
پہلے ہوئے نبیڑ ، نئے مت خراب کر
جو جس مقام پر ہے اُسے بے سبب نہ چھیڑ
بکھرے ہوئے سمیٹ ، پڑے مت خراب کر
مانے ہوئے کی مان کے ترتیب ٹھیک رکھ
روٹھے منا منا کے سمے مت خراب کر
چھُونے کے بھی اصول ہیں ، ہر شاخ کو نہ چھُو
چھدرے تو منتظر ہیں ، گھنے مت خراب کر
جو فطرتاً خراب ہیں ان کا تو حل نہیں
جو ٹھیک مل گئے ہیں تجھے مت خراب کر
بے لمس پھلتے پھولتے خود رَو کو مت اکھیڑ
جو بات خود بخود ہی بنے مت خراب کر
تیرے خراب کردہ بہت ہیں دلِ خراب
اتنا بھلا تو کر کہ بھلے مت خراب کر
اب سلوٹوں سمیت پہن یا سمیٹ دے
تجھ سے کہا بھی تھا کہ مجھے مت خراب کر
بے لطف زندگی بھی خرابی ہے سر بسر
واجب خرابیوں کے مزے مت خراب کر
اتنا نہ کر دراز خرابی کا سلسلہ
اک شے کو دوسری کے لیے مت خراب کر
وہ خود خراب کرنے پہ کرتا ہے مشتعل
جو روز بار بار کہے مت خراب کر


DOREIN LAGI HUI HAIN IBADAAT KI TARAF…

دوڑیں لگی ہوئی ہیں عبادات کی طرف
سب کی نظر ہے اپنے مفادات کی طرف
مجھ کو پتہ ہے چپ کے خسارے تو ہیں ، مگر
کیسے گھسیٹ لاؤں اسے بات کی طرف
دیکھا ! حسین شخص نے نقصان کر دیا
کس نے کہا تھا جا تُو فسادات کی طرف
عادات سر کے ساتھ ہی جاتی ہیں میری جان !
آخر پلٹنا پڑتا ہے عادات کی طرف
بے چینیاں ، مصیبتیں ، وحشت ، اذیتیں
اک دن چلو گے تم بھی مکافات کی طرف
خود سر اٹھا کے چلنے کے قابل نہیں ہوئے
انگلی اٹھا رہے ہیں مری ذات کی طرف
بے حرمتی کسی کی ہو ، دکھ مجھ کو ہوتا ہے
میرا خیال جاتا ہے سادات کی طرف


ISHQ MEIN LAJAWAB HAIN HUM LOG…

عشق میں لا جواب ہیں ہم لوگ
ماہتاب آفتاب ہیں ہم لوگ
گرچہ اہل شراب ہیں ہم لوگ
یہ نہ سمجھو خراب ہیں ہم لوگ
شام سے آ گئے جو پینے پر
صبح تک آفتاب ہیں ہم لوگ
ہم کو دعوائے عشق بازی ہے
مستحق عذاب ہیں ہم لوگ
ناز کرتی ہے خانہ ویرانی
ایسے خانہ خراب ہیں ہم لوگ
ہم نہیں جانتے خزاں کیا ہے
کشتگان شباب ہیں ہم لوگ
تو ہمارا جواب ہے تنہا
اور تیرا جواب ہیں ہم لوگ
تو ہے دریائے حسن و محبوبی
شکل موج و حباب ہیں ہم لوگ
گو سراپا حجاب ہیں پھر بھی
تیرے رخ کی نقاب ہیں ہم لوگ
خوب ہم جانتے ہیں اپنی قدر
تیرے نا کامیاب ہیں ہم لوگ
ہم سے غفلت نہ ہو تو پھر کیا ہو
رہرو ملک خواب ہیں ہم لوگ
جانتا بھی ہے اس کو تو واعظ
جس کے مست و خراب ہیں ہم لوگ
ہم پہ نازل ہوا صحیفۂ عشق
صاحبان کتاب ہیں ہم لوگ
ہر حقیقت سے جو گزر جائیں
وہ صداقت مآب ہیں ہم لوگ
جب ملی آنکھ ہوش کھو بیٹھے
کتنے حاضر جواب ہیں ہم لوگ


JO SHAKS MUDATOON MEREY SHEDAYOON MEIN THA…

جو شخص مدتوں مرے شیدائیوں میں تھا
آفت کے وقت وہ بھی ، تماشائیوں میں تھا
اس کا علاج ، کوئی مسیحا نہ کر سکا
جو زخم میری روح کی گہرائیوں میں تھا
کچھ وضع احتیاط سے ، بانوؔ تھے ہم بھی دور
کچھ دوستوں کا ہاتھ بھی رسوائیوں میں تھا


YE LAZAMI NAHIN

یہ لازمی نہیں بانہوں کے درمیاں بھی رہے
مِری دُعا ہے کہ تُو خوش رہے جہاں بھی رہے
یہی بہت ہے کہ نظروں کے سامنے ہے وہ شخص
کہاں لکھا ہے کہ وہ مجھ پہ مہرباں بھی رہے
تُو جاتے جاتے مجھے ایسا زخم دیتا جا
کہ درد بھی رہے تاعُمر اور نشاں بھی رہے
نگاہِ یار نے کل یُوں سنبھل کے دیکھا مجھے
کہ تذکرہ بھی نہ ہو اور داستاں بھی رہے
نبھا رہا ہے تعلق وہ اس طرح فارس
کہ دوستی بھی لگے، عشق کا گماں بھی رہے


« Older posts Newer posts »

© 2025 EAGLE SITE

Theme by Anders NorenUp ↑