Apni kismat mein koi shaks manane ko nahin
hum wo be sud jo rothein to pare rehte hain
اپنی قسمت میں کوئی شخص منانے کو نہیں
ہم وہ بے سود جو روٹھیں تو پڑے رہتے ہیں،
کیا اثاثہ ہے جسے کھو بھی نہیں سکتے ہیں
ہم ترے ہو کے ترے ہو بھی نہیں سکتے ہیں
سب کی نظریں مرے دامن پہ جمی رہتی ہیں
داغ دل کش ہے بہت دھو بھی نہیں سکتے ہیں
درد اتنا کہ پہاڑوں کو بھی تلپٹ کر دے
اور انا ایسی کہ ہم رو بھی نہیں سکتے ہیں
ٹوٹ جاتے ہیں جہاں جاگتا ہوں، خواب سبھی
یعنی اب طے ہؤا ہم سو بھی نہیں سکتے ہیں
ایسا خود رو ہے شجر توبہ محبت ابرک
اس کو من چاہی جگہ بو بھی نہیں سکتے ہی
Kya asasa hai jise kho bhi nahi sakte hain
Hum tere ho ke tere ho bhi nahi sakte hain
Sab ki nazarain mere daaman pe jami rehti hain
Daagh dil kash hai bohot dho bhi nahi sakte hain
Dard itna ke pahaaron ko bhi talpat kar de
Aur ana aisi ke hum ro bhi nahi sakte hain
Tut jaate hain jahan jaagta hoon, khwaab bhi
Yani ab tay hua hum so bhi nahi sakte hain
Aisa khud ro hai shajar toba muhabbat abrak
Usko man chahi jagah bhi nahi sakte hain
What possession is there that we cannot lose?
We cannot even claim to be yours while being yours.
Everyone’s gaze remains fixed upon my robe.
The heartache is so deep, we cannot wash it away.
The pain is such that it makes mountains crumble,
And pride is such that we cannot even weep.
Wherever I wake, dreams shatter,
It means now we cannot even sleep.
Such is the self-pitying tree of repentance, love’s abrak,
We cannot even find a place to hold it.
درد کم ہونے لگا آؤ کہ کچھ رات کٹے
غم کی معیاد بڑھاؤ کہ کچھ رات کٹے
ہجر میں آہ و بکا رسمِ کہن ہے لیکن
آج یہ رسم ہی دہراؤ کہ کچھ رات کٹے
یوں تو تم روشنیِ قلب ونظر ہو لیکن
آج وہ معجزہ دکھلاؤ کہ کچھ رات کٹے
دل دکھاتا ہے وہ مل کر بھی مگر آج کی رات
اسی بے درد کو لے آؤ کہ کچھ رات کٹے
دم گھٹا جاتا ہے افسردہ دلی سے یارو
کوئی افواہ ہی پھیلاؤ کہ کچھ رات کٹے
میں بھی بیکار ہوں اور تم بھی ہو ویران بہت
دوستو آج نہ گھر جا ؤ کہ کچھ رات کٹے
چھوڑ آئے ہو سرِ شام اسے کیوں ناصر
اسے پھر گھر سے بلا لاؤ کہ کچھ رات کٹے
DARD KAM HONE LAGA ,AAO KE KUCH RAAT KATAY
Dard kam hone laga, aao ke kuch raat katay
Gham ki yaad barhao ke kuch raat katay
Hijr mein aah o baka rasam-e-kehn hai lekin
Aaj yeh rasam hi dehrao ke kuch raat katay
Yun to tum roshni-e-qalb o nazar ho lekin
Aaj woh mojiza dikhlaao ke kuch raat katay
Dil dikhata hai woh mil kar bhi magar aaj ki raat
Issi be-dard ko le aao ke kuch raat katay
Dam ghatta jaata hai afsurda dili se yaaro
Koi afwah hi phailao ke kuch raat katay
Main bhi bekaar hoon aur tum bhi ho veeraan bohot
Dosto, aaj na ghar jao ke kuch raat katay
Chhod aaye ho sar-e-shaam use kyun Nasir
Use phir ghar se bula lao ke kuch raat katay
گلوں سی گفتگو کریں، قیامتوں کے درمیاں
ہم ایسے لوگ اب مِلیں حکایتوں کے درمیاں
ہتھیلیوں کی اَوٹ ہی چراغ لے چلوں ابھی
ابھی سَحر کا ذکر ہے روایتوں کے درمیاں
جو دِل میں تھی نِگاہ سی، نِگاہ میں کِرن سی تھی
وہ داستاں اُلجھ گئی، وضاحتوں کے درمیاں
کوئی نگر، کوئی گلی، شجر کی چھاؤں ہی سہی
یہ زندگی نہ کٹ سکے مسافتوں کے درمیاں
اب اُس کے خال و خد کا رنگ مجھ سے پوچھنا عبث
نِگہ جھپک جھپک گئی اِرادتوں کے درمیاں
صبا کا ہاتھ تھام کر اداؔ نہ چل سکو گی تم
تمام عُمر خواب خواب ساعتوں کے درمیاں
ہم مسافر یونہی مصروفِ سفر جائیں گے
بے نشاں ہو گئے جب شہر تو گھر جائیں گے
کس قدر ہو گا یہاں مہر و وفا کا ماتم
ہم تری یاد سے جس روز اتر جائیں گے
جوہری بند کیے جاتے ہیں بازارِ سخن
ہم کسے بیچنے الماس و گہر جائیں گے
نعمتِ زیست کا یہ قرض چکے گا کیسے
لاکھ گھبرا کے یہ کہتے رہیں، مر جائیں گے
شاید اپنا بھی کوئی بیت حُدی خواں بن کر
ساتھ جائے گا مرے یار جدھر جائیں گے
فیض آتے ہیں رہِ عشق میں جو سخت مقام
آنے والوں سے کہو ہم تو گزر جائیں گے
سبھی ندیاں مجھ سے ملیں مگر میں کسی سے جا کے مِلا نہیں
میرے دل کی سمت نہ دیکھو تم، کسی اور کا یہ مقام ہے
یہاں اس کی یادیں مقیم ہیں، یہ کسی کو میں نے دیا نہیں
مجھے دیکھ کے نہ جھُکا نظر، نہ کواڑ دل کے تو بند کر
تیرے گھر میں آؤں گا کس طرح کہ میں آدمی ہوں ہوا نہیں
میرے دل کی خوشبو سے بھر گیا، وہ قریب سے یوں گزر گیا
وہ میری نظر میں تو پھول ہے، اسے کیا لگا میں پتا نہیں
میری عمر بھر کی تھکاوٹیں، تو پلک جھپکتے اُتر گئیں
مجھے اتنے پیار سے آج تک کسی دوسرے نے چُھوا نہیں
یہ مقدروں کی لکھاوٹیں، جو چمک گئیں وہ پڑھی گئیں
جو میرے قلم سے لکھا گیا اسے کیوں کسی نے پڑھا نہیں
یہ بدر اب بھی سوال ہے، کہ بے رخی ہے کہ پیار ہے
کبھی پاس اس کے گیا نہیں کبھی دُور اس سے رہا نہیں
سر سے پا تک وہ گلابوں کا شجر لگتا ہے
باوضو ہو کے بھی چھوتے ہوئے ڈر لگتا ہے
میں ترے ساتھ ستاروں سے گزر سکتا ہوں
کتنا آسان محبت کا سفر لگتا ہے
مجھ میں رہتا ہے کوئی دشمن جانی میرا
خود سے تنہائی میں ملتے ہوئے ڈر لگتا ہے
بُت بھی رکھے ہیں، نمازیں بھی ادا ہوتی ہیں
دل میرا دل نہیں، اللہ کا گھر لگتا ہے
زندگی تو نے مجھے قبر سے کم دی ہے زمیں
پاؤں پھیلاؤں تو دیوار میں سر لگتا ہے
ہمارا دل سویرے کا سنہرا جام ہو جائے
چراغوں کی طرح آنکھیں جلیں جب شام ہو جائے
میں خود بھی احتیاطا” اُس طرف سے کم گزرتا ہوں
کوئی معصوم کیوں میرے لیئے بدنام ہو جائے
عجب حالات تھے یوں دل کا سودا ہو گیا آخر
محبت کی حویلی جس طرح نیلام ہو جائے
مجھے معلوم ہے اُس کا ٹھکانہ پھر کہاں ہو گا
پرندہ آسماں چھونے میں جب ناکام ہو جائے
سمندر کے سفر میں اس طرح آواز دے مجھ کو
ہوائیں تیز ہوں اور کشتیوں میں شام ہو جائے
اُجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو
نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جا
اپنی رسوائی، ترے نام کا چرچا دیکھوں
اِک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں
نیند آ جائے تو کیا محفلیں برپا دیکھوں
آنکھ کھُل جائے تو تنہائی کا صحرا دیکھوں
شام بھی ہو گئی، دھُندلا گئیں آنکھیں بھی مری
بھُولنے والے، میں کب تک ترا رَستا دیکھوں
ایک اِک کر کے مجھے چھوڑ گئیں سب سکھیاں
آج میں خُود کو تری یاد میں تنہا دیکھوں
کاش صندل سے مری مانگ اُجالے آ کر
اتنے غیروں میں وہی ہاتھ ، جو اپنا دیکھوں
تو مرا کُچھ نہیں لگتا ہے مگر جانِ حیات!
جانے کیوں تیرے لیے دل کو دھڑکتا دیکھوں!
بند کر کے مِری آنکھیں وہ شرارت سے ہنسے
بُوجھے جانے کا میں ہر روز تماشہ دیکھوں
سب ضِدیں اُس کی میں پوری کروں ، ہر بات سُنوں
ایک بچے کی طرح سے اُسے ہنستا دیکھوں
مُجھ پہ چھا جائے وہ برسات کی خوشبو کی طرح
انگ انگ اپنا اسی رُت میں مہکتا دیکھوں
پھُول کی طرح مرے جسم کا ہر لب کھِل جائے
پنکھڑی پنکھڑی اُن ہونٹوں کا سایا دیکھوں
میں نے جس لمحے کو پُوجا ہے، اُسے بس اِک بار
اب بن کر تری آنکھوں میں اُترتا دیکھوں
تو مری طرح سے یکتا ہے، مگر میرے حبیب!
میں آتا ہے، کوئی اور بھی تجھ سا دیکھوں
ٹُوٹ جائیں کہ پگھل جائیں مرے کچے گھڑے
تجھ کو میں دیکھوں کہ یہ آگ کا دریا دیکھوں
وہ درد، وہ وفا، وہ محبت تمام شُد
لے! دل میں تیرے قُرب کی حسرت تمام شُد
یہ بعد میں کھُلے گا کہ کِس کِس کا خوں ھُوا
ھر اِک بیان ختم، عدالت تمام شُد
تُو اب تو دشمنی کے بھی قابل نہیں رھا
اُٹھتی تھی جو کبھی وہ عداوت تمام شُد
اب ربط اِک نیا مجھے آوارگی سے ھے
پابندیِ خیال کی عادت تمام شُد
جائز تھی یا نہیں تھی، تیرے حق میں تھی مگر
کرتا تھا جو دل کبھی وہ وکالت تمام شُد
وہ روز روز مرنے کا قِصہ ھوا تمام
وہ روز دِل کو چیرتی وحشت تمام شُد
محسن میں کُنجِ زیست میں چُپ ہوں پڑا
مجنُوں سی وہ خصلت و حالت تمام شُد
© 2025 Hobbies
Theme by Anders Noren — Up ↑