زندگی تُجھ کو اگر وجد میں لاؤں واپس
چاک پہ کُوزہ رکھوں ، خاک بناؤں واپس
دل میں اِک غیر مُناسب سی تمنّا جاگی
تُجھ کو ناراض کروں روز مناؤں واپس
وہ میرا نام نہ لے صِرف پُکارے تو سہی
کُچھ بہانہ تو مِلے دوڑ کے آؤں واپس
وقت کا ہاتھ پکڑنے کی شرارت کر کے
اپنے ماضی کی طرف بھاگتا جاؤں واپس
تھا تیرا حُکم سو جنت سے زمیں پر آیا
ہو گیا ختم تماشا تو میں جاؤں واپس
(منقول)
Be First to Comment