تیری باتیں ہی سنانے آئے
دوست بھی دل ہی دُکھانے آئے
پھول کھلتے ہیں تو ہم سوچتے ہیں
تیرے آنے کے زمانے آئے
ایسی کچھ چپ سی لگی ہے جیسے
ہم تجھے حال سنانے آئے
عشق تنہا ہے سرِ منزلِ غم
کون یہ بوجھ اُٹھانے آئے
اجنبی دوست ہمیں دیکھ کہ ہم
کچھ تجھے یاد دِلانے آئے
دل دھڑکتا ہے سفر کے ہنگام
کاش پھر کوئی بلانے آئے
اب تو رونے سے بھی دل دُکھتا ہے
شاید اب ہوش ٹھکانے آئے
کیا کہیں پھر کوئی بستی اُجڑی
لوگ کیوں جشن منانے آئے
سو رہو موت کے پہلو میں فراز
نیند کس وقت نہ جانے آئے
احمد فراز