‎تجربہ تھا، سو دعا کی تا کہ نقصان نہ ہو
‎عشق مزدور کو مزدوری کے دوران نہ ہو

‎ میں اسے دیکھ نہ پاتا تھا “پریشانی” میں
‎سو دعا کرتا تھا، مر جاۓ، پریشان نہ ہو

‎گاؤں میں دور کی سِسکی بھی سنی جاتی ہے
‎سب پہنچتے ہیں، بھلے آنے کا اعلان نہ ہو

‎ایک رقاصہ نے اک عمر یہاں “رقص” کیا
‎دل کی دھک دھک میں چھنن چھن ہے تو حیران نہ ہو

‎اب تعوّذ کو بدل دینے میں کیا راۓ ہے؟
‎جہاں شیطان لکھا ہے، وہاں انسان نہ ہو؟

‎شکریہ! مجھ کو نہ دیکھا، مِری مشکل حل کی
‎میری کوشش بھی یہی تھی، مِری پہچان نہ ہو