Tag: urdupoetry (Page 15 of 39)

IS MOHABAT MEIN YAHI AZAAR THA

اس محبت میں یہی آزار تھا
جو کیا جتنا کیا بے کار تھا

خواب تھا میرا کہ میں بیدار تھا
آپ آئے ، فیصلہ دشوار تھا

چاند تارے توڑ بھی لائے مگر
اس کو اب کچھ اور ہی درکار تھا

آنکھ کو بھاتے ہیں چہرے اور بھی
دل مرا پر صاحبِ کردار تھا

روتے روتے کیا بچھڑنا، ہنس دیے
ہم سے کب یہ پہلی پہلی بار تھا

خود کو اچھا کیسے کہہ دوں میں بھلا
آخرش میرا بھی اک معیار تھا

ایک جملے میں خلاصہ زیست کا
تخت جانا تھا جسے وہ دار تھا


DARGUZAR MERI HAR KHATA KAR DE

درگزر میری ہر خطا کر دے
بے سکوں ہوں سکوں عطا کر دے

میرے لب پر وہی دعا کر دے
جو معطل مری سزا کردے

بند کر دے ہر ایک در مجھ پر
اس طرح خود سے آشنا کر دے

اپنی خواہش کا ہوں ستایا ہوا
اپنی چاہت سا پھر نیا کر دے

جو نہ بھولے کبھی تجھے اک پل
حافظہ وہ مجھے عطا کر دے

سارا عالم ہے سر جھکائے ہوئے
لا دوا ہے مرض دوا کر دے

وہ نہ چاہے تو پھر بتا ابرک
کون ہے جو ترا بھلا کر دے


SAR YE HAR HAAL JHUKA, HUM NE QINAYAT KI THI

سر یہ ہر حال جھکا ، ہم نے قناعت کی تھی
اک تری بار ہی بس رب سے شکایت کی تھی

اِس قدر سخت سزا بھی تو نہیں بنتی تھی
ہم نے بچپن سے نکلنے کی شرارت کی تھی

ہوش والوں کی نہ باتوں میں ہمی آئے کبھی
ورنہ ہر اک نے سنبھلنے کی ہدایت کی تھی

معتبر تھے کبھی دنیا کی نظر میں ہم بھی
پھر ہوا یوں کہ مری تم نے حمایت کی تھی

ہم نے مانا کہ چلو مرکزی مجرم ہم ہیں
کچھ دنوں تم نے بھی تو ہم سے محبت کی تھی

بے وفاوں سے وفا خبط ہے لا حاصل سا
ہمیں معلوم تھا پھر بھی یہ حماقت کی تھی

نفع نقصان کی باتیں نہیں جچتی ہم کو
ہم نے کب یار ترے ساتھ تجارت کی تھی

مبتلا تازہ ہے تو، خوش ہے محبت سے تو سُن
اس نے آغاز میں ہم پر بھی عنایت کی تھی

کیوں زبانوں پہ فقط نام ترا ہے ابرک
تم سے پہلے بھی تو کتنوں نے بغاوت کی تھی


WOHI HAI GER JO MOHRAM HAI KYA KIYA JAYE

وہی ہے غیر جو محرم ہے کیا کیا جائے
ہوا کے دوش پہ پرچم ہے کیا کیا جائے
ہم اپنے ظلم کی فریاد لے کے آئے تھے
تمہارا اپنا ہی ماتم ہے کیا کیا جائے
یہ کس چراغ نے مشکل میں ڈال دی ہے ہوا
نہ بجھ رہا ہے نہ مدھم ہے کیا کیا جائے
ہمارے خون کی اوقات ہی نہیں کوئی
ترا لعاب بھی زم زم ہے کیا کیا جائے


BATA DIYA HAI TUJHE YE SAMAN NAHI HONA

بتا دیا ہے تجھے ‘ یہ سماں نہیں ہونا
نظر ہٹائی تو ہم نے یہاں نہیں ہونا
تجھے سمجھنا پڑے گا بہاؤ کا مسلک
جو آب شار ہے اُس نے کنواں نہیں ہونا
مجھے سراب کِیا ہے تو کر نظارہ بھی
کہ ایسی رَیت نے پھر یوں رواں نہیں ہونا
اسی یقین میں ہر ایک ہو گیا معدوم
کہ میں نہیں ہوں وہ ، جس کا نشاں نہیں ہونا
ہم اپنی تَہہ میں بھڑکتے ہوئے سمجھتے ہیں
کہ اِس الاؤ نے شاید دھواں نہیں ہونا
ترا شمار بڑھانے کو صفر ہو جاؤں
مجھے بس اتنا بتا دے کہاں نہیں ہونا
الگ قرینہء صَوت و صدا ہے ہر پَل کا
نواے نیم شبی نے اذاں نہیں ہونا


MEIN CHAL RAHA THA TERE SATH KIS YAKEEN KE SAATH

میں چل رہا تھا ترے ساتھ کس یقین کے ساتھ
ترا بھی رابطہ نکلا منافقین کے ساتھ
ہر ایک رند کی حیرت تھی دیکھنے والی
شریف زادوں کو دیکھا جو بد ترین کے ساتھ
جب آسمان پہ جوڑے بنائے جا رہے تھے
تو خال خال حسیں تھا کسی حسین کے ساتھ
جو سادہ دل ہیں وہی دل کو راس آتے ہیں
میں عشق کر نہیں سکتا کسی ذہین کے ساتھ
تمام شہر نے جھوٹی خبر کو مان لیا
صغیر دیکھا گیا ایک مہ جبین کے ساتھ


US KE NAZDEEK GUM-E-TARAK-E-WAFA KUCH BHI NAHIN

اُس کے نزدیک غمِ ترکِ وفا کچھ بھی نہیں
مطمئن ایسا ہے وہ جیسے کہ ہوا کچھ بھی نہیں
اب تو ہاتھوں سے لکیریں بھی مٹی جاتی ہیں
اُس کو کھو کر تو میرے پاس رہا کچھ بھی نہیں
کل بچھڑنا ہے تو پھر عہدِ وفا سوچ کے باندھ
ابھی آغازِ محبت ہے گیا کچھ بھی نہیں
میں تو اس واسطے چپ ہوں کہ تماشہ نہ بنے
تو سمجھتا ہے مجھے تجھ سے گلہ کچھ بھی نہیں
اے شمار آنکھیں اسی طرح بچھائے رکھنا
جانے کس وقت وہ آ جائے پتہ کچھ بھی نہیں


DARHTI CHATKH RAHI HAI JO PAANI KE BAWAJOD

دھرتی چٹخ رہی ہے جو پانی کے باوجود
کچھ تو رُکا ہُوا ہے روانی کے باوجود
اے نخلِ نو بہار تیرے ساتھ کیا ہُوا
شانے جھکے ہوئے ہیں جوانی کے باوجود
ہم صنعتِ تضاد کی زندہ مثال ہیں
ہنسنا پڑا ہے اشک فشانی کے باوجود
یہ دورِ داستان فروشاں ہے سو یہاں
چلتی نہیں ہے بات کہانی کے باوجود
نقصان تو کرے گی یہ عُجلت کی پختگی
لفظوں میں رَس نہ ہو گا معانی کے باوجود
ہم نے جڑوں سے پیار کیا اور جُڑے رہے
اب تک ہرے ہیں عُمر خزانی کے باوجود


Kitaab-e-zeest ke unwaan badal gaye…

Kitaab-e-zeest ke unwaan badal gaye,lekin

Nisaab-e-jaan se tere tazkire na gaye…

کتاب زیست کے عنوان بدل گئے لیکن

نصاب جان سے تیرے تذکرے نہ گئے

WOHI KALAM KARE JIS KO GHUFTAGO AYE

وہی کلام کرے جس کو گفتگو آئے
سخن شناس ہے کوئی تو روبرو آئے
ہم اپنا دل لیے بیٹھے ہیں بام پر بے بس
وہ جن کے پاس تھے پیسے وہ چاند چھو آئے
دئیے بجھائے ہواؤں نے توڑ دی مینا
برس چکی جو گھٹائیں تو ہم سبو آئے
ابھی سے پھر لیے جاتے ہو کوئے دلبر میں
ابھی تو یار لٹا کر ہیں آبرو آئے
اسی اجاڑ اندھیرا بھرے مکاں میں حسن
میں چاند رات سجاؤں جو یار تو آئے


« Older posts Newer posts »