Kuch hadson sey gir gaye muhsin zameen par
hum rashke asmaan they abhi kal ki baat hai
کچھ حادثوں سے گر گئے محسن زمین پر
ہم رشک آسمان تھے ابھی کل کی بات ہے
Kuch hadson sey gir gaye muhsin zameen par
hum rashke asmaan they abhi kal ki baat hai
کچھ حادثوں سے گر گئے محسن زمین پر
ہم رشک آسمان تھے ابھی کل کی بات ہے
Aata hai kaun kaun merey gham ko banteney,
Muhsin tu meri mout ki afwah udda key dekh…
آتا ہے کون کون میرے غم کو بانٹنے
محسن تو میری موت کی افواہ اڑا کے دیکھ
چل پڑا ہوں زمانے کے اصولوں پہ محسن
میں بھی اب اپنی ہی باتوں سے مکر جاتا ہوں
Chal para hoon zamaney key asolon pey Muhsin
Mein bhi ab apni he baton sey mukar jata hoon…
Ye sharat-e-ulfat bhi ajab hai Muhsin,
Mein pora utarta hoon,wo mayar badal detey hain…
یہ شرط الفت بھی عجب ہے محسن
میں پورا اترتا ہوں وہ معیار بدل دیتے ہیں
خود بہ خود چھوڑ گئے ہیں تو چلو ٹھیک ہوا
اتنے احباب کہاں ہم سے سمبھالے جاتے
ہم بھی غالب کی طرح کونچہ عہ جاناں سے محسن
نہ نکلتے تو کسی روز نکالے جاتے
Khud-ba-khud chorh gaye hain to chalo theek hua,
Itney ahbab kahan hum sey sambhaley jaatey,
Hum bhi Ghalib ki tarahan koncha-e-janan sey Muhsin,
Na nikaltey to kisi roz nikaley jaatey…
محسن تماشا بین ہیں سارے یہ غمگسار
کیجئے نہ اپنے غم کی وضاحت کسی سے بھی
Muhsin tamasha been hain sarey ye gumsaar,
Kijiye na aapney gum ki wazahat kisi sey bhi…
Haasil-e-zindagi hasratoon key siwa kch nahin Muhsin,
Ye kiya nahin, wo huya nahin, ye mila nahin, wo raha nahin…
حاصل زندگی حسرتوں کے سوا کچھ نہیں محسن
یہ کیا نہیں ،وہ ہوا نہیں ،یہ ملا نہیں ،وہ رہا نہیں
وفائے عشق ہوں میں
اب بکھر جاؤں تو بھتر ہے
جدھر جاتے ہیں یہ بادل
ادھر جاؤں تو بہتر ہے
یہ دل کہتا ہے تیرے شہر میں کچھ دن ٹہر جاوں
مگر حالات کہتے ہیں کہ گھر جاؤں تو بہتر ہے
دلوں میں فرق آئیں گے
تعلق ٹوٹ جائیں گے
جو دیکھا، جو سنا اس سے مکر جاؤں تو بہتر ہے
یہاں ہے کون میرا جو مجھے سمجھے گا
میں کوشش کر کے اب خود ہی سدھر جاؤں تو بہتر ہے
مرحلے شوق کے دُشوار ہُوا کرتے ہیں
سائے بھی راہ کی دیوار ہُوا کرتے ہیں
وہ جو سچ بولتے رہنے کی قسم کھاتے ہیں
وہ عدالت میں گُنہگار ہُوا کرتے ہیں
صرف ہاتھوں کو نہ دیکھو کبھی آنکھیں بھی پڑھو
کچھ سوالی بڑے خودار ہُوا کرتے ہیں
وہ جو پتھر یونہی رستے میں پڑے رہتے ہیں
اُن کے سینے میں بھی شہکار ہُوا کرتے ہیں
صبح کی پہلی کرن جن کو رُلا دیتی ہے،
وہ ستاروں کے عزادار ہُوا کرتے ہیں
جن کی آنکھوں میں سدا پیاس کے صحرا چمکیں
در حقیقت وہی فنکار ہُوا کرتے ہیں
شرم آتی ہے کہ دُشمن کِسے سمجھیں محسن
دُشمنی کے بھی تو معیار ہُوا کرتے ہیں
منسوب تھے جو لوگ میری زندگی کے ساتھ
اکثر وہی ملے ہیں بڑی بےرخی کے ساتھ
یوں تو میں ہنس پڑا ہوں تمہارے لئے مگر
کتنے ستارے ٹوٹ پڑے اک ہنسی کے ساتھ
فرصت ملے تو اپنا گریبان بھی دیکھ لے
اے دوست یوں نہ کھیل میری بے بسی کے ساتھ
مجبوریوں کی بات چلی ہے تو منے کہاں
ہم نے پیا ہے زہر بھی اکثر خوشی کے ساتھ
چہرے بدل بدل کے مجھے مل رہے ہیں لوگ
اتنا برا سلوک میری سادگی کے ساتھ
اک سجدہ خلوص کی قیمت فضاے خلد
یا رب نہ کر مذاق میری بندگی کے ساتھ
محسن کرم بھی ہو جس میں خلوص بھی
مجھ کو غضب کا پیار ہے اس دشمنی کے ساتھ
© 2024 Eagle Miscellany