در و دیوار تھکتے جا رہے ہیں
شریکِ کار تھکتے جا رہے ہیں
خزاں کے قہقہے بتلا رہے ہیں
گل و گلزار تھکتے جا رہے ہیں
کہانی مختصر کرنا پڑے گی
سبھی کردار تھکتے جا رہے ہیں
کہیں کچھ ہے کمی اس کی تھکن ہے
کہیں انبار تھکتے جا رہے ہیں
گنہ گاروں کو کیا کہئے خدارا
کہ نیکو کار تھکتے جا رہے ہیں
بھنور میں جو ہیں ان کا پوچھئے مت
لگے جو پار تھکتے جا رہے ہیں
ہمیں مارا ہے یارو اس خبر نے
ہمارے یار تھکتے جا رہے ہیں
غمِ جاناں کہ دوراں ، کچھ تو ہوتا
یونہی بے کار تھکتے جا رہے ہیں
خرابی کا مداوا خاک ہو اب
کہ ذمہ دار تھکتے جا رہے ہیں
Tag: Aatbafabrakpoetry
ہم کو سولی پہ چڑھانا ہے چلے جانا ہے
تو نے بس ہاتھ چھڑانا ہے چلے جانا ہے
عمر بھر آنکھ میں انگار بھرے گا میری
تو نے تو خواب دکھانا ہے، چلے جانا ہے
کوئی تفصیل، دلاسہ نہیں، تاویل نہیں
فیصلہ تو نے سنانا ہے چلے جانا ہے
مجھ کو معلوم تھا تجدیدِ وفا کرتے ہوئے
تو نے کل پھر سے رلانا ہے چلے جانا ہے
میں کہانی تو نہیں ہوں کہ سدا رہ جاؤں
میں نے کردار نبھانا ہے چلے جانا یے
لوگ اس وہم میں آتے ہیں تری دنیا میں
چار دن ہنسنا ہنسانا ہے چلے جانا ہے
زیست اب اور کوئی کام نہیں ہے باقی
بس ترا سوگ منانا ہے چلے جانا ہے
ہم جو ٹھہرے ہیں یہاں ٹھہرے ہیں ابرک کے لئے
اپنا تو اور زمانہ ہے چلے جانا ہے