راستوں سے کیا گلہ ہے جو منزل یہاں نہیں
جس پار تھا اترنا وہ ساحل یہاں نہیں

مانا وہی ہے شہر، وہی بھیڑ بھاڑ ہے
جس کو میری تلاش وہ محفل یہاں نہیں

لازم ہمی پہ کیوں ہے، ہر اک خواب دیکھنا
کیوں ہم کسی کے خواب کا حاصل یہاں نہیں

ممکن کہاں ہے اور کی اب جستجو کروں
جب اک نظر کے بھی کوئی قابل یہاں نہیں

تم اور تمہارے بعد یہ آسانیاں ہوئیں
اب اور کوئی بھی ہمیں مشکل یہاں نہیں

کیسے کہوں یہ جھوٹ کہ سینے میں دل نہیں
یہ بھی ہے سچ وہ پہلی سی ہلچل یہاں نہیں

نیندوں کو ہم سے بچھڑے زمانے گزر گئے
یادوں سے آج کہنا وہ غافل یہاں نہیں


جو بھی یہاں پہ نکلا محبت کو بانٹنے
دریا میں پھینک آیا کہ سائل یہاں نہیں

ابرک، اٹھو، چلو کہیں دیتے ہیں اور جاں
تو جس کو ڈھونڈتا ہے وہ قاتل یہاں نہیں