Sohbat e Ahl e Zamana
صحبتِ اہلِ زمانہ مجھے کیا راس آتی شور سے بھاگتا ہوں، زعم سے گھبراتا ہوں خورشید رضوی
صحبتِ اہلِ زمانہ مجھے کیا راس آتی شور سے بھاگتا ہوں، زعم سے گھبراتا ہوں خورشید رضوی
کِس طرز سے گزار رہا ہے مجھے یہ وقت کِن تعلقوں کے دام میں آیا ہوا ہوں میں دیکھوں تو میرے چار سُو اِتنا ہجوم ہے سوچُوں تو عین وسط…
میں ہوں، تم ہو، بیلیں، پیڑ، پرندے ہیں کتنے عرصے بعد، مکمل جنگل ہے مجھ میں کوئی گوشہ بھی آباد نہیں۔ جنگل ہے سرکار، مسلسل جنگل ہے عمیر نجمی
ہم خود آزار تھے سو لوگوں کو آزماتے چلے گئے ہوں گے ہم جو دنیا سے تنگ آئے ہیں تنگ آتے چلے گئے ہوں گے جون ایلیا
اختلافِ جہاں کا رنج نہ تھا دے گئے مات ہم خیال ہمیں کیا توقع کریں زمانے سے ہو بھی گر جرأتِ سوال ہمیں ہم یہاں بھی نہیں ہیں خوش لیکن…
تمام لوگ سمجھتے ہیں سبز پیڑ مجھے ہوائے زرد کوئی اور دن، نہ چھیڑ مجھے ذرا سا وقت لگا، خود کو بُن لیا میں نے کہا تھا اتنے سلیقے سے…
کوئی مِلا تو ہاتھ مِلایا، کہیں گئے تو باتیں کیں گھر سے باہر جب بھی نِکلے، دِن بَھر بوجھ اُٹھایا ہے
اور اچانک ایک طویل سفر کے بعدتم پر یہ راز کھلتا ہےکہ تمہیں اِس زندگی میں بہترین بننے کی خواہش ہی نہیںتمہیں تو بس یہ چاہیے کہ سکونِ دل کے…
کمی نہیں ہے کسی چیز کی مگر اکثر اکیلا بیٹھ کے رویا ہوں زار زار بہت
وقت کی اُڑتی دُھول میں اپنے نقش گنوائے پھرتے ہیں رِم جھِم صبحوں، روشن شاموں، ریشم راتوں والے لوگ محسنؔ نقوی