کوئی بن گیا رونق اَکھیاں دی
کوئی چھوڑ کے شیش محل چلیا
کوئی پلیاں ناز تےِ نخریان وِچ
کوئی ریِت گرم تے تھل چلیا
کوئی بھل گیا مقصد آون دا
کوئی کرکے مقصد حل چلیا
اِتھے ہر کوئی (فرید) مسافر ہے
کوئی اَج چلیا کوئی کل چلیا
Page 40 of 62
ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کے جس کا وعدہ ہے
جو لوحِ ازل پہ لکھا ہے
ہم دیکھیں گے
جب ظلم و ستم کے کوہِ گراں
روئی کی طرح اُ ڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاوٗں تلے
یہ دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
اور اہلِ حکم کے سر اوُپر
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
ہم دیکھیں گے
جب ارضِ خدا کے کعبہ سے
سب بت اُٹھوائے جائیں گے
ہم اہلِ صفا مردودِ حرم
مسند پر بٹھلائے جائیں گے
سب تاج اُچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
بس نام رہے گا اللہ کا
جو غائب بھی ہے حاضر بھی
جو منظر بھی ہے ناظر بھی
اُٹھے گا انالحق کا نعرہ
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
اور راج کرے گی خلقِ خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
ہم دیکھیں گے
رُو برو وہ ہے عبادت کر رہا ہوں
اُس کے چہرے کی تلاوت کر رہا ہُوں
لو خریدو اِک نظر کے مول مجھ کو
اپنی قیمت میں رعایت کر رہا ہُوں
لی ہے ضبط نے مجھ سے اجازت
اپنے مہمانوں کو رخصت کر رہا ہوں
چِھن گیا مُلکِ جوانی بھی تو کیا غم
اب بھی یادوں پر حکومت کر رہا ہوں
اُس نے تو بس اک ذرا سی بات چھیڑی
میں وضاحت پر وضاحت کر رہا ہوں
چارہ گر، اےدلِ بے تاب! کہاں آتے ہیں
مجھ کو خوش رہنے کے آداب کہاں آتے ہیں
میں تو یک مُشت اُسے سونپ دُوں سب کچھ، لیکن
ایک مُٹّھی میں ، مِیرے خواب کہاں آتے ہیں
مُدّتوں بعد اُسے دیکھ کے، دِل بھر آیا
ورنہ ،صحراؤں میں سیلاب کہاں آتے ہیں
میری بے درد نِگاہوں میں، اگر بُھولے سے
نیند آئی بھی تو ، اب خواب کہاں آتے ہیں
تنہا رہتا ہُوں میں دِن بھر ،بَھری دُنیا میں قتیل
دِن بُرے ہوں، تو پھر احباب کہاں آتے ہیں
