Page 28 of 54

NA JEENEY KI SAHULAT HAI NA MARNEY KI IJAZAT HAI

نہ جینے کی سہولت ہے نہ مرنے کی اجازت ہے
بہت آسان ہے کہنا، مجھے تم سے محبت ہے
مجھے اُس کی، اُسے اُس کی، اُسے اُس کی ضرورت ہے
سوائے اِس مصیبت کے یہ دنیا خوبصورت ہے
غمِ ہستی ، غمِ بستی ، غمِ دوراں، غمِ ہجراں
اور اس پر بھی دھڑکنا دل کا، ہم کو اس پہ حیرت ہے
کسی کی چپ کا مطلب یہ نہیں، شکوہ نہیں اُس کو
کھلا اعلان ہے یہ تو ، شکایت ہی شکایت ہے
مکر جانا ، بدل جانا ، جفا کرنا ، دغا دینا
یہ سب کچھ آ گیا تجھ کو تو پھر تیری حکومت ہے
نہ اب صیاد ہے حائل نہ میری قید ہے باقی
تو پھر زندان یہ کیونکر ، تو پھر کیسی حراست ہے
کچھ اتنا ڈوب جاتا ہے یہ ابرک ہر کہانی میں
ہر اک کردار کی وحشت لگے اپنی ہی وحشت ہے


KHAWAB DIKHLA KEY NIKAL JAATEY HAIN TABEERON SEY

خواب دکھلا کے نکل جاتے ہیں تعبیروں سے
ہم بندھے رہتے ہیں خود ساختہ زنجیروں سے
غور کرنے پہ بھی اب یاد نہیں آتا ہے
پوچھنا پڑتا ہے، میں کون ہوں، تصویروں سے
یوں نہیں ہے کہ فقط تو ہی خفا ہے مجھ سے
خود بھی عاجز ہوں بہت، اپنی ہی تدبیروں سے
مجھ کو معلوم نہیں پڑتا عدو کون ہے تو
میں پتہ پوچھتا رہتا ہوں ترا، تیروں سے
جیتنا ہے تو محبت سے ہرانا ہو گا
لوگ ڈرتے نہیں اب آپ کی شمشیروں سے
دن بدل جائیں گے تیرے جو خدا مل جائے
خود بخود ہاتھ چھڑا لے گا تو ان پیروں سے
وہ تو کہتا ہے کہ آسان زباں ہے میری
ہم نے آسانی کو مشکل کیا تفسیروں سے
آج سب سے بڑے ناقد ہیں وہی لوگ مرے
جن کو تحریک ملی تھی مری تحریروں سے


DO GHARHI MANGI JAHAN JANEY KI FURSAT HUM NEY

دو گھڑی مانگی جہاں جینے کی فرصت ہم نے
زندگی کو یہ لگا ، کی ہے شکایت ہم نے
جس سے لڑتے ہیں اسے آپ منا لیتے ہیں
خوب بدلی ہے ترے بعد یہ عادت ہم نے
جانے کیا حال ترے بعد ہوا ہو اپنا
تیرے جاتے ہی کیا خود کو بھی رخصت ہم نے
ایک ہی شخص پہ موقوف جہاں کیا کرنا
دل کو بہکایا بہت ، لاکھ کی منت ہم نے
کٹ گئے یونہی ترے ہجر میں سب ماہ و سال
ایک صورت کے سوا دیکھی نہ صورت ہم نے
یونہی الزام نہ دے دیکھ بھلے یاروں کو
کسی ناصح کی سنی کب ہے نصیحت ہم نے
بیچ آتی ہیں ہمیں روز ہماری سانسیں
اپنے ہونے کی چکائی بڑی قیمت ہم نے
ایک دنیا ہمیں پہلے بھی یہاں جانتی تھی
بس ترے غم ہی سے پائی نہیں شہرت ہم نے
اپنے حالات پہ ہنستے ہیں بہت ہنستے ہیں
کیسی کم ظرف یہ پائی ہے طبیعت ہم نے
حادثے زخم بھی دیتے ہیں سبق بھی ابرک
ایک ہی شخص سے پکڑی بڑی عبرت ہم نے


NA JAANE KITNEY TUKRON MEIN BATA HUN

نہ جانے کتنے ٹکڑوں میں بٹا ہوں
میں اپنے ہاتھ سے خود گر پڑا ہوں
گھٹن ، وحشت ہی باقی رہ گئی ہے
میں کب کا خود سے ہجرت کر چکا ہوں
روایت سے نہیں بنتی ہے میری
خطا میری ہے میں کیوں سوچتا ہوں
مٹانے کو مجھے سب مر رہے ہیں
سو یہ تو طے ہؤا سب سے بڑا ہوں
تمہارے مشوروں سے لگ رہا ہے
میں دنیا میں اکیلا رہ گیا ہوں
یہی اک حل سمجھ آیا تھا مجھ کو
خفا تجھ سے تھا خود سے لڑ پڑا ہوں
کوئی آئے بٹائے ہاتھ میرا
میں اپنے بوجھ سے تھکنے لگا ہوں
مقابل زیر کر بیٹھا تو دیکھا
اب اپنے سامنے میں خود کھڑا ہوں


REHTA HAI SATH SATH WO JANEY KEY BAAD BHI

رہتا ہے ساتھ ساتھ وہ جانے کے بعد بھی
ملبہ وہیں پڑا ہے اٹھانے کے بعد بھی
سمجھے تھے ہم کہ آخری دشواریاں ہیں یہ
اک اور تھا زمانہ ، زمانے کے بعد بھی
کر ہجر میں شمار اسے وصل میں نہ لکھ
آیا نہ اب کی بار وہ آنے کے بعد بھی
مجھ سے زیادہ حافظہ ہے مبتلا مرا
پڑھتا ہے تیرے خط یہ جلانے کے بعد بھی
اب پیرِ تسمہ پا سے نہیں کم یہ زندگی
جو بچ گئی ہے تجھ پہ لٹانے کے بعد بھی
یوں کارِ عشق فرق ہے کارِ جہان سے
بڑھتا ہے بوجھ اور گھٹانے کے بعد بھی
تقدیر سے انہیں بھی گلہ ہے، عجیب ہے
ملتے نہیں جو لوگ ملانے کے بعد بھی
شاید رواج ہی نہیں ابرک یہاں رہا
رسوا ہوں کیوں وگرنہ نبھانے کے بعد بھی
ایسی سیاہ رات سے ہے واسطہ پڑا
روشن ہؤا دیا نہ جلانے کے بعد بھی
اکتا گیا ہے اک ہی مشقت سے دل مرا
لگتا نہیں ہے اب یہ لگانے کے بعد بھی


SAR E BAZAAR SAJATEY HO TO KYUN LIKHTEY HO

سرِ بازار سجاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
گر قلم بیچ کے کھاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
جھوٹ کے پاؤں بناتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
آنکھ دیکھا نہ دکھاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
وقت کی دھونس میں آتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
شاہ کے ناز اٹھاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
راہ سیدھی نہ دکھاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
خضر ، رہزن کو بتاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
خونِ ناحق جو چھپاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
ظلم انصاف بتاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
بات بے وجہ بڑھاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
دیے نفرت کے جلاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
خود کو لفظوں میں نچاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
بس خریدار رجھاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو


BASA TO LETEY NAYA DIL MEIN HUM MAKEEN LEKIN

بسا تو لیتے نیا دل میں ہم مکیں لیکن
ملا نہ آپ سے بڑھ کر کوئی حسیں لیکن
کسی کے بعد بظاہر تو کچھ نہیں بدلا
ہمارے پاؤں تلے اب نہیں زمیں لیکن
جہانِ عشق سے باہر بھی ایک دنیا ہے
دلایا دل کو بہت ہم نے یہ یقیں ، لیکن
یقیں مجھے ہے مرے ساتھ سانپ کوئی نہیں
ہر ایک ہاتھ کی ​ہوتی ہے آستیں لیکن
ہزار جام مچلتے رہے ہمارے لئے
ہماری پیاس نہ چھلکی کبھی کہیں لیکن
سبھی فریب تھا لیکن وہ آخری جملہ
کبھی ملیں گے دوبارہ یہیں کہیں لیکن
یہ اور بات خوشی ساتھ ساتھ ہے ابرک
ہمارے بیچ کوئی رابطہ نہیں لیکن


ZINDAGI KI CHAHAT MEIN ZINDAGI GANWAI HAI

زندگی کی چاہت میں زندگی گنوائی ہے
عارضی محبت تھی مستقل نبھائی ہے
سوکھ کر ہرے پتے شاخ سے گریں گے پھر
ڈوبتا ہے دل میرا جب بہار آئی ہے
مختصر کہانی کچھ یوں ہے رائیگانی کی
بڑھ گئے اندھیرے کچھ، شمع جب جلائی ہے
قید میں رہائی کے خواب دیکھنے والا
اب رہا ہؤا ہے تو قید یاد آئی ہے
خاک پھر بھلا بنتی میری تیری دنیا سے
اک طرف خدا تو ہے، اک طرف خدائی ہے
مجھ کو بھی ملا دینا ، تم کو گر وہ مل جائے
خوش ہے زندگی جس سے ، جس کو راس آئی ہے
جلد باز کہتے ہیں راستے ہمیں ابرک
منزلوں کو شکوہ ہے دیر کیوں لگائی ہے


KYA LAGEY ANKH

کیا لگے آنکھ کہ پھر دل میں سمایا کوئی
رات بھر پھرتا ہے اس شہر میں سایا کوئی
فکر یہ تھی کہ شبِ ہجر کٹے گی کیوں کر
لطف یہ ہے کہ ہمیں یاد نہ آیا کوئی
شوق یہ تھا کہ محبت میں جلیں گے چپ چاپ
رنج یہ ہے کہ تماشا نہ دکھایا کوئی
شہر میں ہمدمِ دیرینہ بہت تھے ناصر
وقت پڑنے پہ مرے کام نہ آیا کوئی

« Older posts Newer posts »