Page 20 of 54

Mujhey ak gali mein para hua kisi bad naseeb ka..

Mujhey ak gali mein para hua kisi badnaseeb ka khat mila,

Kahin khoon-e-dil sey likha hua kahin anso’un sey mita hua …

مجھے اک گلی میں پڑا ہوا کسی بد نصیب کا خط ملا

کہیں خون دل سے لکھا ہوا کہیں آنسوؤں سے مٹا ہوا

APNI PALKON PE JAMI GIRD KA HASIL MANGE

اپنی پلکوں پہ جمی گرد کا حاصل مانگے
وہ مسافر ہوں جو ہر موڑ پہ منزل مانگے
.
میری وسعت کی طلب نے مجھے محدود کیا
میں وہ دریا ہوں جو موجوں سے بھی ساحل مانگے
.
خواہش وصل کو سو رنگ کے مفہوم دئیے
بات آساں تھی مگر لفظ تو مشکل مانگے
.
دل کی ضد پر نہ خفا ہو میرے افلاک نشیں
دل تو پانی سے بھی عکس ماہ کامل مانگے
.
سانس میری تھی مگر اس سے طلب کی محسن
جیسے خیرات سخی سے کوئی سائل مانگے
.


YE NA THI HAMARI KISMAT KE WISAL YAAR HOTA

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا
کبھی تو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا
کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیر نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا
رگ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا
جسے غم سمجھ رہے ہو یہ اگر شرار ہوتا
غم اگرچہ جاں گسل ہے پہ کہاں بچیں کہ دل ہے
غم عشق گر نہ ہوتا غم روزگار ہوتا
کہوں کس سے میں کہ کیا ہے شب غم بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا
ہوئے مر کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا
نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا
اسے کون دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا
جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دو چار ہوتا
یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالبؔ
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا


JUNOON MEIN SHOQ KI GHERAIYUN SE DARTA RAHA

جُنوں میں شوق کی گہرائیوں سے ڈرتا رہا
میں اپنی ذات کی سچّائیوں سے ڈرتا رہا
محبّتوں سے شناسا ہُوا میں جس دن سے
پھر اُس کے بعد شناسائیوں سے ڈرتا رہا
وہ چاہتا تھا کہ تنہا مِلوں، تو بات کرے !
میں کیا کروں کہ میں تنہائیوں سے ڈرتا رہا
میں ریگزار تھا، مجھ میں بسے تھے سنّاٹے
اِسی لئے تو میں شہنائیوں سے ڈرتا رہا
میں اپنے باپ کا یوسف تھا، اِس لئے مُحسن
سُکوں سے سو نہ سکا، بھائیوں سے ڈرتا رہا


HATA KAR JHOOT SE PARDA SADAQAT KON LIKHE GA

ہٹا کر جھوٹ سے پردہ صداقت کون لکھے گا
اگر ہم بھی چھپائیں تو حقیقت کون لکھے گا
اگر تم جھوٹ، رشوت اور مکاری سے جیتو گے
تو پھر ایسی سیاست کو سیاست کون لکھے گا
بہائے کتنے تو نے خون تخت و تاج کی خاطر
نبھائی تُو نے کس کس سے عداوت کون لکھے گا
قصیدے شاہ کے لکھنے میں جب مصروف ہوں سارے
تو پھر بھوکی رعایا کی شکایت کون لکھے گا
کہانی ظلم کی ہر شخص کو معلوم ہے لیکن
کرے گا کون پر لکھنے کی جرات، کون لکھے گا
یہ مانا شاعری تو خوب لکھتا ہے مگر تیرے
فنِ تحریر کو فہم و فراست کون لکھے گا
یہاں ہر شخص ہی مصروف ہے پیسے کمانے میں
حقیقت میں تو سچ لکھنا ہے دولت کون لکھے گا
تمہاری وجہِ شہرت تو فقط ہے خوف اے ظالم
تمہارا نام دنیا میں محبت کون لکھے گا
اگر ہر بار گھبراوگے تم حق بات کہنے سے
تمہاری بزدلی کو پھر شرافت کون لکھے گا
جہاں انسان کی اپنی کوئی قیمت نہیں
وہاں انسان کے جذبوں کی قیمت کون لکھے گا


waqt karta hai parvirish barson

waqt karta hai parvirish barson,

hadsa aik dam nahin hota


وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ايک دم نہيں ہوتا


TU SHAHEEN HAI PARWAAZ HAI KAM TERA

تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے، بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں


HAZARON KHUWAISHEIN AESI KE HAR KHUWAISH PE DAM NIKLE

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
ڈرے کیوں میرا قاتل؟ کیا رہے گا اُس کی گردن پر
وہ خوں، جو چشم تر سے عمر بھر یوں دم بہ دم نکلے؟
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بے آبرُو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے
بھرم کھل جائے ظالم تیرے قامت کی درازی کا
اگر اس طرۂ پرپیچ و خم کا پیچ و خم نکلے
مگر لکھوائے کوئی اُس کو خط تو ہم سے لکھوائے
ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے
ہوئی اِس دور میں منسُوب مُجھ سے بادہ آشامی
پھر آیا وہ زمانہ جو جہاں میں جامِ جم نکلے
ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستۂ تیغِ سِتم نکلے
ذرا کر زور سینے پر کہ تیر پُرسِتم نکلے
جو وہ نکلے تو دل نکلے، جو دل نکلے تو دم نکلے
کہاں میخانے کا دروازہ غالب! اور کہاں واعظ
پر اِتنا جانتے ہیں، کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے​


WO WAHAN MEHFIL AGYAAR KIYE BETHE HAIN

وہ وہاں محفلِ اغیار کئے بیٹھے ہیں
ہم یہاں دشت کو بیزار کئے بیٹھے ہیں

وہ جو کہتے تھے محبت ہے محبت تم سے
آج اس جرم سے انکار کئے بیٹھے ہیں

زندگی ویسے تو کچھ دور نہیں ہے ہم سے
بیچ رستے میں وہ دیوار کئے بیٹھے ہیں

کہہ گیا تھا وہ کہ خوابوں سے نکالو ہم کو
خود کو تعمیل میں بیدار کئے بیٹھے ہیں

اک طرف ہم سے کہیں ہم سے کنارہ کیجے
اک طرف دل میں گرفتار کئے بیٹھے ہیں

پھر بھلا چاند ستاروں سے انہیں کیا لینا
لوگ جو آپ کا دیدار کئے بیٹھے ہیں

ہم تھے سمجھے کہ کوئی خاص کرم ہے ہم پر
ان کے نسخے کئی بیمار کئے بیٹھے ہیں

اک خبر مجھ کو بنا کر مرے سب چارہ گر
خود کو ہر چوک میں اخبار کئے بیٹھے ہیں

ہم کو معلوم کہ انجام ہے رسوائی اب
ضد محبت کی یہ بے کار کئے بیٹھے ہیں

لوگ ابرک ترے شعروں کو بتا کر اپنا
وقت کو اپنا پرستار کئے بیٹھے ہیں


Wo rakh le mujhe apne pas qaid kar k

wo rakh le mujhe apne pas qaid kar k

kash kuch aesa mujhse kasur ho jaye


وہ رکھ لے مجھے اپنے پاس کئی قید کر کے

کاش کچھ ا یسا مجھ سے کسور ہو جائے


« Older posts Newer posts »