Page 16 of 54

TU NE DEKHA HAI KABHI AIK NAZAR SHAAM KE BAAD

تو نے دیکھا ہے کبھی ایک نظر شام کے بعد
کتنے چپ چاپ سے لگتے ہے ہیں شجر شام کے بعد
اتنے چپ چاپ کے رستے بھی رہیں گے لا علم
چھوڑ جائیں گے کسی روز نگر شام کے بعد
میں نے ایسے ہی گناہ تیری جدائی میں کیے
جیسے طوفاں میں چھوڑ دے گھر شام کے بعد
شام سے پہلے وہ مست اپنی اڑانوں میں رہا
جس کے ہاتھوں میں تھے ٹوٹے ہوئے پر شام کے بعد
رات بیتی تو گنے آبلے اور پھر سوچا
کون تھا باعث آغاز سفر شام کے بعد
تو ہے سورج تجھے معلوم کہاں رات کا دکھ
تو کسی روز میرے گھر میں اتر شام کے بعد
لوٹ آئے نہ کسی روز وہ آوارہ مزاج
کھول رکھتے ہیں اسی آس پہ در شام کے بعد


HAR AIKBAAT PE KEHTE HO TUM KE TO KYA HAI

ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تمھیں کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے
نہ شعلے میں یہ کرشمہ نہ برق میں یہ ادا
کوئی بتاؤ کہ وہ شوخِ تند خو کیا ہے
یہ رشک ہے کہ وہ ہوتا ہے ہم سخن تم سے
وگرنہ خوفِ بد آموزیٔ عدو کیا ہے
چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن
ہمارے جیب کو اب حاجتِ رفو کیا ہے
جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے
رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ سے ہی نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے
وہ چیز جس کے لیے ہم کو ہو بہشت عزیز
سوائے بادۂ گل فامِ مشک بو کیا ہے
پیوں شراب اگر خم بھی دیکھ لوں دو چار
یہ شیشہ و قدح و کوزہ و سبو کیا ہے
رہی نہ طاقتِ گفتار اور اگر ہو بھی
تو کس امید پہ کہیے کہ آرزو کیا ہے
ہوا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے


MUHBAT HO TO TANHAI MEIN BHI AIK KAIF HOTA HAI

محبت ہو تو تنہا ئی میں بھی اک کیف ہو تا ہے
تمنا ؤں کی نغمہ آفریں محفل ہے تنہا ئی
بہت دن وقت کی ہنگامہ آرائی میں گزرے ہیں
انھیں گزرے ہوئے ایام کا حاصل ہے تنہائی
ہجوم ِزیست سے دوری نے یہ ما حول بخشا ہے
اکیلی میں ، مرا کمرہ ہے اور قا تل ہے تنہا ئی
مرے ہر کام کی مجھ کو و ہی تحریک دیتی ہے
اگر چہ دیکھنے میں کس قدر مشکل ہے تنہا ئی
اسی نے تو تخیل کو مرے پر واز بخشی ہے
خدا کا شکر ہے جو اب کسی قا بل ہے تنہا ئی
محبت کی شعا عوں سے توا نا ئی جو ملتی ہے
اسی رنگینیءِ مفہوم میں دا خل ہے تنہا ئی
خدا حسرت زدہ دل کی تمنا ؤ ں سے وا قف ہے
دعائیں روز و شب کرتی ہوئی سائل ہے تنہائی
کسی کی یاد ہے دل میں ابھی تک انجمن آ را
سبیلہ کون سمجھے گا کہ میرا دل ہے تنہائی


TU SATH NAHIN HAI TO MUQABIL HI KHADHA REH

تو ساتھ نہیں ہے تو مقابل ہی کھڑا رہ
اتنی تو تسلی رہے تنہا نہیں ہوں میں


US WAQAT TO YUN LAGTA HAI AB

اس وقت تو یوں لگتا ہے اب کچھ بھی نہشیں ہے
مہتاب نہ سورج، نہ اندھیرا نہ سویرا
آنکھوں کے دریچوں پہ کسی حُسن کی چِلمن
اور دل کی پناہوں میں کسی درد کا ڈیرا
ممکن ہے کوئی وہم تھا، ممکن ہے سُنا ہو
گلیوں میں کسی چاپ کا اِک آخری پھیرا
شاخوں میں خیالوں کے گھنے پیڑ کی شاید
اب آ کے کرے گا نہ کوئی خواب بسیرا
اِک بَیر، نہ اِک مہر، نہ اِک ربط نہ رشتہ
تیرا کوئی اپنا، نہ پرایا کوئی میرا
مانا کہ یہ سُنسان گھڑی سخت کڑی ہے
لیکن مِرے دل یہ تو فقط اِک ہی گھڑی ہے
ہمت کرو جینے کو تو اِک عمر پڑی ہے


AB KE TAJDED WAFA NAHIN IMKAN JANAN

اب کے تجدید وفا کا نہیں امکاں جاناں
یاد کیا تجھ کو دلائیں ترا پیماں جاناں

یوں ہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے
کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں

زندگی تیری عطا تھی سو ترے نام کی ہے
ہم نے جیسے بھی بسر کی ترا احساں جاناں

دل یہ کہتا ہے کہ شاید ہے فسردہ تو بھی
دل کی کیا بات کریں دل تو ہے ناداں جاناں

اول اول کی محبت کے نشے یاد تو کر
بے پیے بھی ترا چہرہ تھا گلستاں جاناں

آخر آخر تو یہ عالم ہے کہ اب ہوش نہیں
رگ مینا سلگ اٹھی کہ رگ جاں جاناں

مدتوں سے یہی عالم نہ توقع نہ امید
دل پکارے ہی چلا جاتا ہے جاناں جاناں

ہم بھی کیا سادہ تھے ہم نے بھی سمجھ رکھا تھا
غم دوراں سے جدا ہے غم جاناں جاناں

اب کے کچھ ایسی سجی محفل یاراں جاناں
سر بہ زانو ہے کوئی سر بہ گریباں جاناں

ہر کوئی اپنی ہی آواز سے کانپ اٹھتا ہے
ہر کوئی اپنے ہی سائے سے ہراساں جاناں

جس کو دیکھو وہی زنجیر بہ پا لگتا ہے
شہر کا شہر ہوا داخل زنداں جاناں

اب ترا ذکر بھی شاید ہی غزل میں آئے
اور سے اور ہوئے درد کے عنواں جاناں

ہم کہ روٹھی ہوئی رت کو بھی منا لیتے تھے
ہم نے دیکھا ہی نہ تھا موسم ہجراں جاناں

ہوش آیا تو سبھی خواب تھے ریزہ ریزہ
جیسے اڑتے ہوئے اوراق پریشاں جاناں


Nazar chura key kaha

Nazar chura key kaha, bus yahi muqdar tha,

Bicharney waley ney malba khuda pey dal diya…

نظر چرا کے کہا ، بس یہی مقدر تھا

بچھڑنے والے نے ملبہ خدا پہ ڈال دیا

Us ki zulf bhi merey jeevan jesi hai

Us ki zulf bhi merey jeevan jesi hai,

Our uljh si jaati hai, suljhaney mein…

اس کی زلف بھی میرے جیون جیسی ہے

اور الجھ سی جاتی ہے سلجھانے میں

حاکم کو میرے حال سے رغبت نہیں کوئی

بارش کا سر پہ زور ہے اور چھت نہیں کوئی

سیلاب لے گیا مرے تن کا لباس بھی

حیرت ہے اب بھی آپ کو حیرت نہیں کوئی

ہر شے کے نرخ بڑھ گئے ، افسوس اس کا ہے

انساں کی میرے دیس میں قیمت نہیں کوئی

اک دن ہوائے وقت کی زد میں تُو آئے گا

اور آئے گی صدا تجھے مہلت نہیں کوئی

مالک مرے سبھی رضاکاروں کی خیر ہو

اس کارِ خیر سے بڑی عظمت نہیں کوئی


khud bhi kuch kam nahin mein apni tabahi ke lye

doston se mujhey imdad bhi aa jati hai

rona hota hai kisi or hawale se mujhey

or aesey mein teri yaad bhi aa jati hai


خود بھی کچھ کم نہیں میں اپنی تباہی کے لیے

دوستوں سے مجھے امداد بھی آ جاتی ہے 

رونا ہوتا ہے کسی اور حوالے سے مجھے

اور ایسے میں تری یاد بھی آ جاتی ہے


« Older posts Newer posts »