Page 15 of 54

SABHI NADIYAN MUJH SE MILEIN MAGAR MEIN KISI SE JA KE MILA NAHIN

سبھی ندیاں مجھ سے ملیں مگر میں کسی سے جا کے مِلا نہیں
میرے دل کی سمت نہ دیکھو تم، کسی اور کا یہ مقام ہے

یہاں اس کی یادیں مقیم ہیں، یہ کسی کو میں نے دیا نہیں
مجھے دیکھ کے نہ جھُکا نظر، نہ کواڑ دل کے تو بند کر

تیرے گھر میں آؤں گا کس طرح کہ میں آدمی ہوں ہوا نہیں
میرے دل کی خوشبو سے بھر گیا، وہ قریب سے یوں گزر گیا

وہ میری نظر میں تو پھول ہے، اسے کیا لگا میں پتا نہیں
میری عمر بھر کی تھکاوٹیں، تو پلک جھپکتے اُتر گئیں

مجھے اتنے پیار سے آج تک کسی دوسرے نے چُھوا نہیں
یہ مقدروں کی لکھاوٹیں، جو چمک گئیں وہ پڑھی گئیں

جو میرے قلم سے لکھا گیا اسے کیوں کسی نے پڑھا نہیں
یہ بدر اب بھی سوال ہے، کہ بے رخی ہے کہ پیار ہے

کبھی پاس اس کے گیا نہیں کبھی دُور اس سے رہا نہیں


SAR SE PAON TAK WO GHULABOON KA SHAJAR LAGTA HAI

سر سے پا تک وہ گلابوں کا شجر لگتا ہے
باوضو ہو کے بھی چھوتے ہوئے ڈر لگتا ہے

میں ترے ساتھ ستاروں سے گزر سکتا ہوں
کتنا آسان محبت کا سفر لگتا ہے

مجھ میں رہتا ہے کوئی دشمن جانی میرا
خود سے تنہائی میں ملتے ہوئے ڈر لگتا ہے

بُت بھی رکھے ہیں، نمازیں بھی ادا ہوتی ہیں
دل میرا دل نہیں، اللہ کا گھر لگتا ہے

زندگی تو نے مجھے قبر سے کم دی ہے زمیں
پاؤں پھیلاؤں تو دیوار میں سر لگتا ہے​


HAMARA DIL SAWERE KA SUNEHRI JAAM HO JAYE

ہمارا دل سویرے کا سنہرا جام ہو جائے​
چراغوں کی طرح آنکھیں جلیں جب شام ہو جائے​

میں خود بھی احتیاطا” اُس طرف سے کم گزرتا ہوں​
کوئی معصوم کیوں میرے لیئے بدنام ہو جائے​

عجب حالات تھے یوں دل کا سودا ہو گیا آخر​
محبت کی حویلی جس طرح نیلام ہو جائے​

مجھے معلوم ہے اُس کا ٹھکانہ پھر کہاں ہو گا​
پرندہ آسماں چھونے میں جب ناکام ہو جائے​

سمندر کے سفر میں اس طرح آواز دے مجھ کو​
ہوائیں تیز ہوں اور کشتیوں میں شام ہو جائے​

اُجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو​
نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جا


APNI RUSWAI, TERE NAAM KE CHARCHA DEKHON

اپنی رسوائی، ترے نام کا چرچا دیکھوں
اِک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں

نیند آ جائے تو کیا محفلیں برپا دیکھوں
آنکھ کھُل جائے تو تنہائی کا صحرا دیکھوں

شام بھی ہو گئی، دھُندلا گئیں آنکھیں بھی مری
بھُولنے والے، میں کب تک ترا رَستا دیکھوں

ایک اِک کر کے مجھے چھوڑ گئیں سب سکھیاں
آج میں خُود کو تری یاد میں تنہا دیکھوں

کاش صندل سے مری مانگ اُجالے آ کر
اتنے غیروں میں وہی ہاتھ ، جو اپنا دیکھوں

تو مرا کُچھ نہیں لگتا ہے مگر جانِ حیات!
جانے کیوں تیرے لیے دل کو دھڑکتا دیکھوں!

بند کر کے مِری آنکھیں وہ شرارت سے ہنسے
بُوجھے جانے کا میں ہر روز تماشہ دیکھوں

سب ضِدیں اُس کی میں پوری کروں ، ہر بات سُنوں
ایک بچے کی طرح سے اُسے ہنستا دیکھوں

مُجھ پہ چھا جائے وہ برسات کی خوشبو کی طرح
انگ انگ اپنا اسی رُت میں مہکتا دیکھوں

پھُول کی طرح مرے جسم کا ہر لب کھِل جائے
پنکھڑی پنکھڑی اُن ہونٹوں کا سایا دیکھوں

میں نے جس لمحے کو پُوجا ہے، اُسے بس اِک بار
اب بن کر تری آنکھوں میں اُترتا دیکھوں

تو مری طرح سے یکتا ہے، مگر میرے حبیب!
میں آتا ہے، کوئی اور بھی تجھ سا دیکھوں

ٹُوٹ جائیں کہ پگھل جائیں مرے کچے گھڑے
تجھ کو میں دیکھوں کہ یہ آگ کا دریا دیکھوں


WO DARD, WO WAFA, WO MUHABAT TAMAM SHUD

وہ درد، وہ وفا، وہ محبت تمام شُد
لے! دل میں تیرے قُرب کی حسرت تمام شُد

یہ بعد میں کھُلے گا کہ کِس کِس کا خوں ھُوا
ھر اِک بیان ختم، عدالت تمام شُد

تُو اب تو دشمنی کے بھی قابل نہیں رھا
اُٹھتی تھی جو کبھی وہ عداوت تمام شُد

اب ربط اِک نیا مجھے آوارگی سے ھے
پابندیِ خیال کی عادت تمام شُد

جائز تھی یا نہیں تھی، تیرے حق میں تھی مگر
کرتا تھا جو دل کبھی وہ وکالت تمام شُد

وہ روز روز مرنے کا قِصہ ھوا تمام
وہ روز دِل کو چیرتی وحشت تمام شُد

محسن میں کُنجِ زیست میں چُپ ہوں پڑا
مجنُوں سی وہ خصلت و حالت تمام شُد


MERA ZARF SAMJHO YA MERI ZAAT KA PARDA

میرا ظرف سمجھو یا میری ذات کا پردہ

‎جب میں بکھرتا ہوں تو خاموش رہتا ہوں


HONTOON PE KABHI UN KE MERA NAAM HE AYE

ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام ہی آئے
آئے تو سہی بر سرِ الزام ہی آئے
حیران ہیں، لب بستہ ہیں، دل گیر ہیں غنچے
خوشبو کی زبانی تیرا پیغام ہی آئے
لمہحاتِ مسرت ہیں تصوّر سے گریزاں
یاد آئے ہیں جب بھی غم و آلام ہی آئے
تاروں سے سجالیں گے رہ شہرِ تمنّا
مقدور نہیں صبح ، چلو شام ہی آئے
کیا راہ بدلنے کا گلہ ہم سفروں سے
جس راہ سے چلے تیرے در و بام ہی آئے
تھک ہار کے بیٹھے ہیں سرِ کوئے تمنّا
کام آئے تو پھر جذبئہِ نام ہی آئے
باقی نہ رہے ساکھ ادا دشتِ جنوں کی
دل میں اگر اندیشہ انجام ہی آئے


us sey bicharey to mar jaen gey…

Us sey bicharey to mar jaen gey,

Kamal ka weham tha, bukhar tak na huwa…

اس سے بچھڑے تو مر جائیں گے

کمال کا وہم تھا ، بخار تک نہ ہوا

AHBAB KA KARM HAI KE KHUD PER KHULA HOON MEIN

احباب کا کرم ہے کہ خود پر کھلا ہوں میں
مجھ کو کہاں خبر تھی کہ اتنا برا ہوں میں
خود سے مجھے جو ہے وہ گلہ کس سے میں کروں
مجھ کو منائے کون کہ خود سے خفا ہوں میں
اٹھے جو اس طرف وہ نظر ہی کہیں نہیں
اک شہرِ کم نگاہ میں کھویا ہُوا ہوں میں
تجھ سے نہیں کہوں گا تو کس سے کہوں گا یار؟
پہلے سمجھ تو جاوٗں کہ کیا چاہتا ہوں میں؟
کیا اور چاہتے ہیں یہ دیدہ ورانِ عصر؟
عادی منافقت کا تو ہو ہی گیا ہوں میں
مل جائیں گے بہت سے تجھے مصلحت پسند
مجھ سے نہ سر کھپا کہ بہت سر پھرا ہوں میں
اب آئینہ بھی پوچھ رہا ہے، تو کیا کہوں
حسرت بھری نگاہ سے کیا دیکھتا ہوں میں
باہر ہے زندگی کی ضرورت میں زندگی
اندر سے ایک عمر ہوئی مر چکا ہوں میں
رہتا ہے اک ہجوم یہاں گوش بر غزل
سنتا ہے کون درد سے جب چیختا ہوں میں
ہیں حل طلب تو مسئلے کچھ اور بھی مگر
اپنے لیے تو سب سے بڑا مسئلہ ہوں میں
میں نے ہی تجھ جمال کو تجھ پر عیاں کیا
اے حسنِ خود پرست، ترا ائینہ ہوں میں
جب تک میں اپنے ساتھ رہا تھا، ترا نہ تھا
اب تیرے ساتھ یوں ہوں کہ خود سے جدا ہوں میں
پہلے میں بولتا تھا بہت، سوچتا تھا کم
اب سوچتا زیادہ ہوں، کم بولتا ہوں میں
عرفان کیا تجھے یہ خبر ہے کہ ان دنوں
ہر دم فنا کے باب میں کیوں سوچتا ہوں میں؟


TU NE DEKHA HAI KABHI AIK NAZAR SHAAM KE BAAD

تو نے دیکھا ہے کبھی ایک نظر شام کے بعد
کتنے چپ چاپ سے لگتے ہے ہیں شجر شام کے بعد
اتنے چپ چاپ کے رستے بھی رہیں گے لا علم
چھوڑ جائیں گے کسی روز نگر شام کے بعد
میں نے ایسے ہی گناہ تیری جدائی میں کیے
جیسے طوفاں میں چھوڑ دے گھر شام کے بعد
شام سے پہلے وہ مست اپنی اڑانوں میں رہا
جس کے ہاتھوں میں تھے ٹوٹے ہوئے پر شام کے بعد
رات بیتی تو گنے آبلے اور پھر سوچا
کون تھا باعث آغاز سفر شام کے بعد
تو ہے سورج تجھے معلوم کہاں رات کا دکھ
تو کسی روز میرے گھر میں اتر شام کے بعد
لوٹ آئے نہ کسی روز وہ آوارہ مزاج
کھول رکھتے ہیں اسی آس پہ در شام کے بعد


« Older posts Newer posts »