علاوہ میرے ہر اک شخص نور نکلے گا

میں جانتا ہوں مرا ہی قصور نکلے گا

یہ خوب ہم سے زمانے نے ضد لگائی ہے

ہوا نہ میرا جو اس کا ضرور نکلے گا

خبر مجھے تھی یہ رستہ نہیں ہے منزل کا

گمان کب تھا کہ خود سے بھی دور نکلے گا

ہے رہزنوں سے رعایت یہ خاص منصف کی

کہ قافلوں کا ہی لٹ کر قصور نکلے گا

اسی امید پہ اب اور کتنی عمریں جیوں

کہ جینا لازماً اک دن سرور نکلے گا

علاج ڈھونڈا تو ڈھونڈا عجب طبیبوں نے

یہ جان نکلے تو دل کا فتور نکلے گا

ہزار بدلو مگر آئینوں کے بس میں نہیں

یہ عکس میرا یونہی چُور چُور نکلے گا

نشہ ہے عارضی ابرک یہ چاہے جانے کا

تمہارے دل سے بھی جلدی غرور نکلے گا