Category: Urdu poetry (Page 27 of 54)

Urdu poetry collection

MANGEY BINA HUMEIN YE RIYAT BHI HOGAI

مانگے بنا ہمیں یہ رعایت بھی ہو گئی
رونا چھپاتے، ہنسنے کی عادت بھی ہو گئی
ویسے تو اس سے پہلے بھی خانہ خراب تھا
پھر یوں ہؤا کہ ہم کو محبت بھی ہو گئی
دیکھا ہے تو نے آئینہ جڑتے ہوئے کبھی
وہ دل ہی کیا کہ جس کی مرمت بھی ہو گئی
اتنا بتا دے کھو کے کسی کو یوں یک بہ یک
پھر پہلے جیسی کیسے طبیعت بھی ہو گئی
تب تک اٹھائے ناز ضرورت تھا جب تلک
پھر ایک روز پوری ضرورت بھی ہو گئی
تا عمر ساتھ چلنے کا وعدہ کیا تھا کل
اور آج تم کو ہم سے شکایت بھی ہو گئی
لوٹا کوئی تو زخم پرانے بھی کھل اٹھے
تجدیدِ بے وفائی کی صورت بھی ہو گئی
کچھ ہاتھ کی لکیروں میں لکھا سبب بنا
کچھ حادثوں کی ہم پہ عنایت بھی ہو گئی
ایسا نہیں کہ جس کے تھے اس کے ہی بس رہے
دو چار بار ہم سے خیانت بھی ہو گئی


Aaeina rakh key saamney…

Aaeina rakh key saamney yaa rab wo fitna saaz,

Tarmeem kar raha hai terey shahkaar mein…

آئینہ رکھ کے سامنے یا رب وہ فتنہ ساز

ترمیم کر رہا ہے تیرے شہکار میں

Khush fehmiyun key silsily…

Khush fehmiyun key silsily itney daraz hain,

Har eent sochti hai dewar mujh sey hai…

خوش فہمیوں کے سلسلے اتنے دراز ہیں

ہر اینٹ سوچتی ہے دیوار مجھ سے ہے

Iss raah-e-shoq mein…

Iss raah-e-shoq mein merey na tajurba shanas,

Gheeron sey dar na dar magar apno sey ahtiyat..

اس راہ شوق میں میرے نہ تجربہ شناس

غیروں سے ڈر نہ ڈر مگر اپنوں سے احتیاط

NA JEENEY KI SAHULAT HAI NA MARNEY KI IJAZAT HAI

نہ جینے کی سہولت ہے نہ مرنے کی اجازت ہے
بہت آسان ہے کہنا، مجھے تم سے محبت ہے
مجھے اُس کی، اُسے اُس کی، اُسے اُس کی ضرورت ہے
سوائے اِس مصیبت کے یہ دنیا خوبصورت ہے
غمِ ہستی ، غمِ بستی ، غمِ دوراں، غمِ ہجراں
اور اس پر بھی دھڑکنا دل کا، ہم کو اس پہ حیرت ہے
کسی کی چپ کا مطلب یہ نہیں، شکوہ نہیں اُس کو
کھلا اعلان ہے یہ تو ، شکایت ہی شکایت ہے
مکر جانا ، بدل جانا ، جفا کرنا ، دغا دینا
یہ سب کچھ آ گیا تجھ کو تو پھر تیری حکومت ہے
نہ اب صیاد ہے حائل نہ میری قید ہے باقی
تو پھر زندان یہ کیونکر ، تو پھر کیسی حراست ہے
کچھ اتنا ڈوب جاتا ہے یہ ابرک ہر کہانی میں
ہر اک کردار کی وحشت لگے اپنی ہی وحشت ہے


KHAWAB DIKHLA KEY NIKAL JAATEY HAIN TABEERON SEY

خواب دکھلا کے نکل جاتے ہیں تعبیروں سے
ہم بندھے رہتے ہیں خود ساختہ زنجیروں سے
غور کرنے پہ بھی اب یاد نہیں آتا ہے
پوچھنا پڑتا ہے، میں کون ہوں، تصویروں سے
یوں نہیں ہے کہ فقط تو ہی خفا ہے مجھ سے
خود بھی عاجز ہوں بہت، اپنی ہی تدبیروں سے
مجھ کو معلوم نہیں پڑتا عدو کون ہے تو
میں پتہ پوچھتا رہتا ہوں ترا، تیروں سے
جیتنا ہے تو محبت سے ہرانا ہو گا
لوگ ڈرتے نہیں اب آپ کی شمشیروں سے
دن بدل جائیں گے تیرے جو خدا مل جائے
خود بخود ہاتھ چھڑا لے گا تو ان پیروں سے
وہ تو کہتا ہے کہ آسان زباں ہے میری
ہم نے آسانی کو مشکل کیا تفسیروں سے
آج سب سے بڑے ناقد ہیں وہی لوگ مرے
جن کو تحریک ملی تھی مری تحریروں سے


DO GHARHI MANGI JAHAN JANEY KI FURSAT HUM NEY

دو گھڑی مانگی جہاں جینے کی فرصت ہم نے
زندگی کو یہ لگا ، کی ہے شکایت ہم نے
جس سے لڑتے ہیں اسے آپ منا لیتے ہیں
خوب بدلی ہے ترے بعد یہ عادت ہم نے
جانے کیا حال ترے بعد ہوا ہو اپنا
تیرے جاتے ہی کیا خود کو بھی رخصت ہم نے
ایک ہی شخص پہ موقوف جہاں کیا کرنا
دل کو بہکایا بہت ، لاکھ کی منت ہم نے
کٹ گئے یونہی ترے ہجر میں سب ماہ و سال
ایک صورت کے سوا دیکھی نہ صورت ہم نے
یونہی الزام نہ دے دیکھ بھلے یاروں کو
کسی ناصح کی سنی کب ہے نصیحت ہم نے
بیچ آتی ہیں ہمیں روز ہماری سانسیں
اپنے ہونے کی چکائی بڑی قیمت ہم نے
ایک دنیا ہمیں پہلے بھی یہاں جانتی تھی
بس ترے غم ہی سے پائی نہیں شہرت ہم نے
اپنے حالات پہ ہنستے ہیں بہت ہنستے ہیں
کیسی کم ظرف یہ پائی ہے طبیعت ہم نے
حادثے زخم بھی دیتے ہیں سبق بھی ابرک
ایک ہی شخص سے پکڑی بڑی عبرت ہم نے


« Older posts Newer posts »