Category: Urdu poetry (Page 22 of 54)

Urdu poetry collection

BATA DIYA HAI TUJHE YE SAMAN NAHI HONA

بتا دیا ہے تجھے ‘ یہ سماں نہیں ہونا
نظر ہٹائی تو ہم نے یہاں نہیں ہونا
تجھے سمجھنا پڑے گا بہاؤ کا مسلک
جو آب شار ہے اُس نے کنواں نہیں ہونا
مجھے سراب کِیا ہے تو کر نظارہ بھی
کہ ایسی رَیت نے پھر یوں رواں نہیں ہونا
اسی یقین میں ہر ایک ہو گیا معدوم
کہ میں نہیں ہوں وہ ، جس کا نشاں نہیں ہونا
ہم اپنی تَہہ میں بھڑکتے ہوئے سمجھتے ہیں
کہ اِس الاؤ نے شاید دھواں نہیں ہونا
ترا شمار بڑھانے کو صفر ہو جاؤں
مجھے بس اتنا بتا دے کہاں نہیں ہونا
الگ قرینہء صَوت و صدا ہے ہر پَل کا
نواے نیم شبی نے اذاں نہیں ہونا


MEIN CHAL RAHA THA TERE SATH KIS YAKEEN KE SAATH

میں چل رہا تھا ترے ساتھ کس یقین کے ساتھ
ترا بھی رابطہ نکلا منافقین کے ساتھ
ہر ایک رند کی حیرت تھی دیکھنے والی
شریف زادوں کو دیکھا جو بد ترین کے ساتھ
جب آسمان پہ جوڑے بنائے جا رہے تھے
تو خال خال حسیں تھا کسی حسین کے ساتھ
جو سادہ دل ہیں وہی دل کو راس آتے ہیں
میں عشق کر نہیں سکتا کسی ذہین کے ساتھ
تمام شہر نے جھوٹی خبر کو مان لیا
صغیر دیکھا گیا ایک مہ جبین کے ساتھ


US KE NAZDEEK GUM-E-TARAK-E-WAFA KUCH BHI NAHIN

اُس کے نزدیک غمِ ترکِ وفا کچھ بھی نہیں
مطمئن ایسا ہے وہ جیسے کہ ہوا کچھ بھی نہیں
اب تو ہاتھوں سے لکیریں بھی مٹی جاتی ہیں
اُس کو کھو کر تو میرے پاس رہا کچھ بھی نہیں
کل بچھڑنا ہے تو پھر عہدِ وفا سوچ کے باندھ
ابھی آغازِ محبت ہے گیا کچھ بھی نہیں
میں تو اس واسطے چپ ہوں کہ تماشہ نہ بنے
تو سمجھتا ہے مجھے تجھ سے گلہ کچھ بھی نہیں
اے شمار آنکھیں اسی طرح بچھائے رکھنا
جانے کس وقت وہ آ جائے پتہ کچھ بھی نہیں


DARHTI CHATKH RAHI HAI JO PAANI KE BAWAJOD

دھرتی چٹخ رہی ہے جو پانی کے باوجود
کچھ تو رُکا ہُوا ہے روانی کے باوجود
اے نخلِ نو بہار تیرے ساتھ کیا ہُوا
شانے جھکے ہوئے ہیں جوانی کے باوجود
ہم صنعتِ تضاد کی زندہ مثال ہیں
ہنسنا پڑا ہے اشک فشانی کے باوجود
یہ دورِ داستان فروشاں ہے سو یہاں
چلتی نہیں ہے بات کہانی کے باوجود
نقصان تو کرے گی یہ عُجلت کی پختگی
لفظوں میں رَس نہ ہو گا معانی کے باوجود
ہم نے جڑوں سے پیار کیا اور جُڑے رہے
اب تک ہرے ہیں عُمر خزانی کے باوجود


Kitaab-e-zeest ke unwaan badal gaye…

Kitaab-e-zeest ke unwaan badal gaye,lekin

Nisaab-e-jaan se tere tazkire na gaye…

کتاب زیست کے عنوان بدل گئے لیکن

نصاب جان سے تیرے تذکرے نہ گئے

WOHI KALAM KARE JIS KO GHUFTAGO AYE

وہی کلام کرے جس کو گفتگو آئے
سخن شناس ہے کوئی تو روبرو آئے
ہم اپنا دل لیے بیٹھے ہیں بام پر بے بس
وہ جن کے پاس تھے پیسے وہ چاند چھو آئے
دئیے بجھائے ہواؤں نے توڑ دی مینا
برس چکی جو گھٹائیں تو ہم سبو آئے
ابھی سے پھر لیے جاتے ہو کوئے دلبر میں
ابھی تو یار لٹا کر ہیں آبرو آئے
اسی اجاڑ اندھیرا بھرے مکاں میں حسن
میں چاند رات سجاؤں جو یار تو آئے


LE GAYA ROOH, BADAN CHOR GAYA

لے گیا روح ، بدن چھوڑ گیا
خواب آنکھوں میں کفن چھوڑ گیا
ہم کو مشکل میں مگن چھوڑ گیا
دل بھی اب تیری لگن چھوڑ گیا
دوست آیا تھا تُو تو میرے لئے
تُو تو اپنی بھی تھکن چھوڑ گیا
پہلے مہکا کوئی خوشبو کی طرح
پھر وہ سانسوں میں گھٹن چھوڑ گیا
ہم پرندوں پہ تھی ہجرت لازم
جب شجر ہی وہ چمن چھوڑ گیا
پھر وفا کا سکھا کے ہم کو چلن
خود وہ کم ظرف یہ فن چھوڑ گیا


UMAR BHAR RASAM-E-PESH WAPAS MEIN RAHE

عمر بھر رسمِ پیش و پس میں رہے
کیا عجب پھر کہ خار و خس میں رہے
آپ کے غم کی دسترس میں رہے
اس برس بھی اُسی برس میں رہے
بے بسی اور کس کو کہتے ہیں
جو نہیں ہے، اسی کے بس میں رہے
تجھ سے ملنا تو خیر خواب ہی تھا
خود سے ملنے کی ہم ہوس میں رہے
صید ہوتے تو کوئی بات بھی تھی
ہو کے صیاد ہم قفس میں رہے


DOOR HAD-E-NAZAR SE AGEY KAHIN

دور حدِ نظر سے آگے کہیں
زندگی اب بھی مسکراتی ہے
اب بھی سورج کی ہے وہی عادت
گھر کے آنگن کو وہ جگاتا ہے
مرمریں شوخ سی حسیں کرنیں
چہرے سب چوم کر اٹھاتی ہیں
وہاں صبحیں بڑی توانا ہیں
اور سب دن بھی خوب دانا ہیں
منہ اندھیرے سفر کو جاتے ہیں
روز پھر گھر میں شام ہوتی ہے
وہی برگد تلے کی ہیں شامیں
ایک حقہ تو ہیں کئی سامع
اب بھی فکریں گلی محلے کی
باتوں باتوں میں ختم ہوتی ہیں
وہی بچوں کا ہے حسیں بچپن
جگنو, تتلی کی ہے وہی ان بن
وہی جھریوں سی پیاری نانی ہے
وہی پریوں کى اک کہانی ہے
سبھی موسم وہاں نشیلے ہیں
وہی قوسِ قزح کے جھولے ہیں
وہاں بارش کی مستیاں اب تک
ٹین کی چھت پہ گنگناتی ہیں
ہے سخن باکمال لوگوں کا
میٹھا پن لازوال لہجوں کا
سچ ہے جذبوں کی روح میں شامل
واں محبت نہ آزماتی ہے
وہاں باقی ہے دوستی کا مان
اور رشتوں میں جان باقی ہے
اب بھی جنت ہے ماں کے قدموں میں
اب بھی ماں لوریاں سناتی ہے
خوشبویں مٹیوں میں زندہ ہیں
عکس بھی پانیوں میں ہیں باقی
اب بھی تاروں کے سنگ راتوں کو
چاندنی محفلیں سجاتی ہے
اب بھی راتوں کو چاند کی سکھیاں
اپنے چندا سے ملنے جاتی ہیں
اور کھڑے دور ایک سائے کو
اپنی سب دھڑکنیں سناتی ہیں
اب تلک امن فاصلوں میں ہے
جشن بھرپور قافلوں میں ہے
گھر کو سب لوٹتے مسافر ہیں
ان کی یادیں نہیں ستاتی ہیں
چلو ہم بھی وہیں پہ چلتے ہیں
دل جہاں آج بھی دھڑکتے ہیں
جہاں اب تک یہ وقت ساکن ہے
زندگی اب بھی مسکراتی ہے
دور حدِ نظر سے آگے کہیں
زندگی اب بھی مسکراتی ہے


MERE HISE MEIN KAM KAM ARAHA HAI

مرے حصے میں کم کم آ رہا ہے
کہاں تو یار بٹتا جا رہا ہے
میسر چودھویں کا چاند بھی ہے
اماوس کا مزا بھی آ رہا ہے
ہمیں اس پھول سے یہ مسئلہ ہے
کہ خوشبو چار سو پھیلا رہا ہے
بچھڑنے تک یقیں تھا پھر یہ خطرہ
ٹلے گا جس طرح ٹلتا رہا ہے
نہ خود کو کوس تو اپنے کئے پر
ہمارے ساتھ یوں ہوتا رہا ہے
جہاں تو تھا وہاں کوئی رہے کیوں
ہمارا خود سے یہ جھگڑا رہا ہے
جدائی نے بجھا ڈالا ہے اس کو
ترے پہلو میں جو جلتا رہا ہے


« Older posts Newer posts »