اُگتے ہوئے نہ روند ، لگے مت خراب کر
تو زرد ہے تو سب کے ہَرے مت خراب کر
اپنی کڑی سے کاٹ خرابی کا سلسلہ
پہلے ہوئے نبیڑ ، نئے مت خراب کر
جو جس مقام پر ہے اُسے بے سبب نہ چھیڑ
بکھرے ہوئے سمیٹ ، پڑے مت خراب کر
مانے ہوئے کی مان کے ترتیب ٹھیک رکھ
روٹھے منا منا کے سمے مت خراب کر
چھُونے کے بھی اصول ہیں ، ہر شاخ کو نہ چھُو
چھدرے تو منتظر ہیں ، گھنے مت خراب کر
جو فطرتاً خراب ہیں ان کا تو حل نہیں
جو ٹھیک مل گئے ہیں تجھے مت خراب کر
بے لمس پھلتے پھولتے خود رَو کو مت اکھیڑ
جو بات خود بخود ہی بنے مت خراب کر
تیرے خراب کردہ بہت ہیں دلِ خراب
اتنا بھلا تو کر کہ بھلے مت خراب کر
اب سلوٹوں سمیت پہن یا سمیٹ دے
تجھ سے کہا بھی تھا کہ مجھے مت خراب کر
بے لطف زندگی بھی خرابی ہے سر بسر
واجب خرابیوں کے مزے مت خراب کر
اتنا نہ کر دراز خرابی کا سلسلہ
اک شے کو دوسری کے لیے مت خراب کر
وہ خود خراب کرنے پہ کرتا ہے مشتعل
جو روز بار بار کہے مت خراب کر
Category: Poetry (Page 20 of 59)
Urdu poetry collection
دوڑیں لگی ہوئی ہیں عبادات کی طرف
سب کی نظر ہے اپنے مفادات کی طرف
مجھ کو پتہ ہے چپ کے خسارے تو ہیں ، مگر
کیسے گھسیٹ لاؤں اسے بات کی طرف
دیکھا ! حسین شخص نے نقصان کر دیا
کس نے کہا تھا جا تُو فسادات کی طرف
عادات سر کے ساتھ ہی جاتی ہیں میری جان !
آخر پلٹنا پڑتا ہے عادات کی طرف
بے چینیاں ، مصیبتیں ، وحشت ، اذیتیں
اک دن چلو گے تم بھی مکافات کی طرف
خود سر اٹھا کے چلنے کے قابل نہیں ہوئے
انگلی اٹھا رہے ہیں مری ذات کی طرف
بے حرمتی کسی کی ہو ، دکھ مجھ کو ہوتا ہے
میرا خیال جاتا ہے سادات کی طرف
عشق میں لا جواب ہیں ہم لوگ
ماہتاب آفتاب ہیں ہم لوگ
گرچہ اہل شراب ہیں ہم لوگ
یہ نہ سمجھو خراب ہیں ہم لوگ
شام سے آ گئے جو پینے پر
صبح تک آفتاب ہیں ہم لوگ
ہم کو دعوائے عشق بازی ہے
مستحق عذاب ہیں ہم لوگ
ناز کرتی ہے خانہ ویرانی
ایسے خانہ خراب ہیں ہم لوگ
ہم نہیں جانتے خزاں کیا ہے
کشتگان شباب ہیں ہم لوگ
تو ہمارا جواب ہے تنہا
اور تیرا جواب ہیں ہم لوگ
تو ہے دریائے حسن و محبوبی
شکل موج و حباب ہیں ہم لوگ
گو سراپا حجاب ہیں پھر بھی
تیرے رخ کی نقاب ہیں ہم لوگ
خوب ہم جانتے ہیں اپنی قدر
تیرے نا کامیاب ہیں ہم لوگ
ہم سے غفلت نہ ہو تو پھر کیا ہو
رہرو ملک خواب ہیں ہم لوگ
جانتا بھی ہے اس کو تو واعظ
جس کے مست و خراب ہیں ہم لوگ
ہم پہ نازل ہوا صحیفۂ عشق
صاحبان کتاب ہیں ہم لوگ
ہر حقیقت سے جو گزر جائیں
وہ صداقت مآب ہیں ہم لوگ
جب ملی آنکھ ہوش کھو بیٹھے
کتنے حاضر جواب ہیں ہم لوگ
یہ لازمی نہیں بانہوں کے درمیاں بھی رہے
مِری دُعا ہے کہ تُو خوش رہے جہاں بھی رہے
یہی بہت ہے کہ نظروں کے سامنے ہے وہ شخص
کہاں لکھا ہے کہ وہ مجھ پہ مہرباں بھی رہے
تُو جاتے جاتے مجھے ایسا زخم دیتا جا
کہ درد بھی رہے تاعُمر اور نشاں بھی رہے
نگاہِ یار نے کل یُوں سنبھل کے دیکھا مجھے
کہ تذکرہ بھی نہ ہو اور داستاں بھی رہے
نبھا رہا ہے تعلق وہ اس طرح فارس
کہ دوستی بھی لگے، عشق کا گماں بھی رہے