کتنی دلکش ہے لاپرواہی اس کی
میری ساری محبت، فضول ہو جیسے
Urdu poetry collection
ہم پر نہیں اب ان کی نظر دیکھ رہے ہیں
دیکھا نہیں جاتا ہے مگر دیکھ رہے ہیں
تھے گھر میں تو بیزار تھے گھر بار سے اپنے
راہوں میں نکل آئے تو گھر دیکھ رہے ہیں
ہم پیروں کے چھالوں سے چراتے ہوئے نظریں
ہاتھوں کی لکیروں میں سفر دیکھ رہے ہیں
بھرتے ہیں جہاں زخم تو لے آتی ہے تازہ
ہم چارہ گری تیرے ہنر دیکھ رہے ہیں
سمجھے تھے محبت میں کہ دستار سجے گی
کر بیٹھے تو کٹتے ہوئے سر دیکھ رہے ہیں
دنیا نے سبق اتنے سکھانے ہیں کہ اب ہم
الفاظ نہیں لہجہ ، نظر دیکھ رہے ہیں
اپنوں کی عطا دھوپ میں جھلسائے ہوئے ہم
اغیار کے آنگن میں شجر دیکھ رہے ہیں
لے دے کے جہاں میں فقط آئینے بچے ہیں
ہم جیسوں کو جو بارِ دگر دیکھ رہے ہیں
دستک کی تمنا لئے اک عمر سے ابرک
دیواروں کے اس شہر میں در دیکھ رہے ہیں
جس سمت نہیں ہم، وہ ادھر دیکھ رہے ہیں
ہم بدلے ہوئے شام و سحر دیکھ رہے ہیں
در و دیوار تھکتے جا رہے ہیں
شریکِ کار تھکتے جا رہے ہیں
خزاں کے قہقہے بتلا رہے ہیں
گل و گلزار تھکتے جا رہے ہیں
کہانی مختصر کرنا پڑے گی
سبھی کردار تھکتے جا رہے ہیں
کہیں کچھ ہے کمی اس کی تھکن ہے
کہیں انبار تھکتے جا رہے ہیں
گنہ گاروں کو کیا کہئے خدارا
کہ نیکو کار تھکتے جا رہے ہیں
بھنور میں جو ہیں ان کا پوچھئے مت
لگے جو پار تھکتے جا رہے ہیں
ہمیں مارا ہے یارو اس خبر نے
ہمارے یار تھکتے جا رہے ہیں
غمِ جاناں کہ دوراں ، کچھ تو ہوتا
یونہی بے کار تھکتے جا رہے ہیں
خرابی کا مداوا خاک ہو اب
کہ ذمہ دار تھکتے جا رہے ہیں
مقابلے کے نہ ہم دشمنی کے قابل ہیں
حسیں لوگ ہیں بس عاشقی کے قابل ہیں
جو اپنی مرضی کا سوچیں تم ان کو دفنا دو
کہ ایسی لڑکیاں کب رخصتی کے قابل ہیں
دُکھی نہیں ہیں کہ ہم کیوں ہوئے نظر انداز
ہمیں پتہ ہے کہ ہم بے رخی کے قابل ہیں
ہمیں ڈرایا گیا کب سکھایا ڈٹ جانا
ہم ایسے لوگ فقط عاجزی کے قابل ہیں
لڑائی ہم کو وراثت میں دی گئی ہے حضور
ہم اہل جنگ کہاں شاعری کے قابل ہیں
کسی وبا میں خدا مبتلا کرے گا ہمیں
ہم ایسے لوگ کہاں خود کشی کے قابل ہیں
جس سے چاہوں ہاتھ ملاؤں میری مرضی
پھر آنکھوں سے دھوکا کھاؤں میری مرضی
میرے لفظ ہیں، تم کو کیا تکلیف ہے ان سے
جو بھی لکھوں میں، جس کو سناؤں، میری مرضی
اس کا ہجر منانا ہی جب واجب ٹھہرا
روؤں پیٹوں، ناچوں گاؤں، میری مرضی
تیرے شہر میں اپنی بھی پہچان ہے کافی
کچھ دن ٹھہروں، آؤں جاؤں، میری مرضی
تیری باتیں لوگ سمجھتے ہیں تو سمجھیں
جیسے بھی میں شعر سناؤں، میری مرضی
کون سا تم بھی ساتھ چلے، جس راہ پڑا میں
لوٹ آؤں یا آگے جاؤں، میری مرضی
تم نے اس کا کیا چھوڑا، جو پوچھ رہے ہو
اب میں جیسے دل بہلاؤں، میری مرضی
روح میں زین کوئی ماتم برپا ہے، سو ہے
نوحہ پڑھ لوں، ساز بجاؤں، میری مرضی
فالتو کو جہاں سمجھتے ہیں
ہم جہاں کو کہاں سمجھتے ہیں
جب تلک راکھ ہو نہیں جاتے
آگ کو بھی دھواں سمجھتے ہیں
کام پڑتا ہے جب زمیں سے ہمیں
ہم اسے آسماں سمجھتے ہیں
دوڑ میں زندگی کی لوگوں کو
لوگ، بیساکھیاں سمجھتے ہیں
بے وفا ہر کسی کو کیا کہنا
خود کو چل بدگماں سمجھتے ہیں
ایک ہی جھوٹ تجھ سے بولا تھا
تیری مجبوریاں سمجھتے ہیں
آپ کی چپ سے ہم کو لگتا ہے
آپ چپ کی زباں سمجھتے ہیں
زندگی کی گھٹن میں یادوں کو
ہم کھلی کھڑکیاں سمجھتے ہیں
زندگی کھیل ہے تخیل کا
آئنے پر کہاں سمجھتے ہیں
آپ اپنی مثال ہیں ابرک
دشمنِ جاں کو جاں سمجھتے ہیں
© 2025 EAGLE SITE
Theme by Anders Noren — Up ↑