Category: Urdu poetry (Page 18 of 54)

Urdu poetry collection

Kabhi chaand us ney kaha…

Kabhi chaand us ney kaha mujhey,

Kabhi asmaan sey gira diya…

کبھی چاند اس نے کہا مجھے

کبھی آسمان سے گرا دیا

Zindagi bhar key imtehan…

Zindagi bhar key imtehan key bad,

Wo natijey mein kisi our ka nikla…

زندگی بھر کے امتحان کے بعد

وہ نتیجے میں کسی اور کا نکلا

Kisi tarha ki ghalat fehmiyan na paliye ga..

Kisi tarha ki ghalat fehmiyan na paliye ga,

Mein aadatan bhi muhabat sey pesh aata hoon…

کسی طرح کی غلط فہمیاں نہ پا لیے گا

میں عادتاً بھی محبت سے پیش آتا ہوں

GARME-E-HASRAT NA KAM SE JAL JAATE HAIN

گرمیٔ حسرتِ نا کام سے جل جاتے ہیں
ہم چراغوں کی طرح شام سے جل جاتے ہیں

شمع جس آگ میں جَلتی ہے نمائش کیلئے
ہم اُسی آگ میں، گُمنام سے جل جاتے ہیں

بَچ نِکلتے ہیں اگر آتشِ سیّال سے ہم
شعلۂ عارضِ گلفام سے جل جاتے ہیں

خود نمائی تو نہِیں شیوۂ اربابِ وفا
جن کو جَلنا ہو ، وُہ آرام سے جل جاتے ہیں

ربطِ باہم پہ ہمیں کَیا نہ کہَیں گے دُشمن
آشنا جب تیرے پیغام سے جل جاتے ہیں

جب بھی آتا ہے مِرا نام ، تِرے نام کے ساتھ
جانے کیوں لوگ، مِرے نام سے جل جاتے ہیں


TUMSE PEHLE WO JO AK SHAKHS YAHAN TAKHT NASHEEN THA

تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا

کوئی ٹھہرا ہو جو لوگوں کے مقابل تو بتاؤ
وہ کہاں ہیں کہ جنہیں ناز بہت اپنے تئیں تھا

آج سوئے ہیں تہ خاک نہ جانے یہاں کتنے
کوئی شعلہ کوئی شبنم کوئی مہتاب جبیں تھا

اب وہ پھرتے ہیں اسی شہر میں تنہا لیے دل کو
اک زمانے میں مزاج ان کا سر عرش بریں تھا

چھوڑنا گھر کا ہمیں یاد ہے جالبؔ نہیں بھولے
تھا وطن ذہن میں اپنے کوئی زنداں تو نہیں تھا


KAYA ISHQ THA JO BAAIS-E-RUSWAI BAN GAYA

کیا عشق تھا جو باعثِ رسوائی بن گیا
یارو تمام شہر تماشائی بن گیا

بن مانگے مل گئے مری آنکھوں کو رت جگے
میں جب سے ایک چاند کا شیدائی بن گیا

دیکھا جو اس کا دستِ حنائی قریب سے
احساس گونجتی ہوئی شہنائی بن گیا

برہم ہوا تھا میری کسی بات پر کوئی
وہ حادثہ ہی وجہِ شناسائی بن گیا

پایا نہ جب کسی میں بھی آوارگی کا شوق
صحرا سمٹ کے گوشہ تنہائی بن گیا

تھا بے قرار وہ مرے آنے سے پیشتر
دیکھا مجھے تو پیکرِ دانائی بن گیا

کرتا رہا جو روز مجھے اس سے بدگماں
وہ شخص بھی اب اس کا تمنائی بن گیا

وہ تیری بھی تو پہلی محبت نہ تھی قتیلؔ
پھر کیا ہوا اگر کوئی ہرجائی بن گیا


Kaya ishq Tha Jo Baais-e-Ruswai ban Gaya

Yaaro Tamam Shehar Tamashai Ban Gaya

Bin Mangay Mil Gaye Meri Aankhoun Ko Ratt Jagay

Main jab Say Aik Chaand Ka Shaidai Ban Gaya

Daikha Jo Uska Dast-e-Hinaai Qareeb Say

Ahsaas Goonjti Hui Shehnai Ban Gaya

Barham Hua Tha Meri Kisi Baat per Koi

Woh Haadsa Hi Wajh-e-Shanasai Ban Gaya

Paaya nah Jab Kisi Main Bhi Awaargi Ka Shauq

Sehra Simat K Gosha-e-Tanhai Ban Gaya

Tah Bay Qaraar Woh Mere Aanay Say Paishtar

Daikha Mujhay To Paikr-e-Danai Ban Gaya

Karta Raha Jo Roz Mujhay Us Say Bad’gumaan

Woh Shakhs Bhi Ab Uska Tamannai Ban Gaya

Woh Teri Bhi To Pehli Muhabbat Nah Thi Qateel

Phir Kaya Hua Agar Koi Harjaai Ban Gaya


DIL MEIN AB YUN TERE BHOOLEY HUYEN GHUM ATEY HAIN

دل میں اب یوں ترے بھولے ہوئے غم آتے ہیں
جیسے بچھڑے ہوئے کعبہ میں صنم آتے ہیں

ایک اک کر کے ہوئے جاتے ہیں تارے روشن
میری منزل کی طرف تیرے قدم آتے ہیں

رقص مے تیز کرو ساز کی لے تیز کرو
سوئے مے خانہ سفیران حرم آتے ہیں

کچھ ہمیں کو نہیں احسان اٹھانے کا دماغ
وہ تو جب آتے ہیں مائل بہ کرم آتے ہیں

اور کچھ دیر نہ گزرے شب فرقت سے کہو
دل بھی کم دکھتا ہے وہ یاد بھی کم آتے ہیں


DADHKANO KI ULJHANO KO SANWARA THA OR BUS

ﺩﮬﮍﮐﻦ ﮐﯽ ﺍﻟﮭﺠﻨﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﻨﻮﺍﺭﺍ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﺲ
ﮐﺎﻏﺬ ﭘﮧ ﺩﻝ ﮐﺎ ﺑﻮﺟﮫ ﺍُﺗﺎﺭﺍ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﺲ
ﺑﺲ ﺍِﺗﻨﺎ ﺟﺎﻧﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺁﻭﺍﺯ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ
ﺍِﺗﻨﺎ ﭘﺘﮧ ﮨﮯ ﺍُﺱ ﻧﮯ ﭘﮑﺎﺭﺍ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﺲ
ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﻓﮑﺮ ﺗﮭﯽ ﻧﮧ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺧﻮﻑ ﺗﮭﺎ
ﮨﻢ ﮐﻮ ﻓﻘﻂ ﺧﯿﺎﻝ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﺲ
ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺍُﺳﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺤﺒﺖ ﺳﻤﺠﮫ ﻟﯿﺎ
ﻣﺤﺴﻦ ﻭﮦ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺟﺎﻥ ﺳﮯ ﭘﯿﺎﺭﺍ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ بس


KUCH TO HAWA BHI SARD THI KUCH THA TERA KHAYAL BHI

‏کچھ تو ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا ترا خیال بھی
دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی
بات وہ آدھی رات کی رات وہ پورے چاند کی
چاند بھی عین چیت کا اس پہ ترا جمال بھی
سب سے نظر بچا کے وہ مجھ کو کچھ ایسے دیکھتا
ایک دفعہ تو رک گئی گردش ماہ و سال بھی
دل تو چمک سکے گا کیا پھر بھی تراش کے دیکھ لیں
شیشہ گران شہر کے ہاتھ کا یہ کمال بھی
اس کو نہ پا سکے تھے جب دل کا عجیب حال تھا
اب جو پلٹ کے دیکھیے بات تھی کچھ محال بھی
میری طلب تھا ایک شخص وہ جو نہیں ملا تو پھر
ہاتھ دعا سے یوں گرا بھول گیا سوال بھی
اس کی سخن طرازیاں میرے لیے بھی ڈھال تھیں
اس کی ہنسی میں چھپ گیا اپنے غموں کا حال بھی
گاہ قریب شاہ رگ گاہ بعید وہم و خواب
اس کی رفاقتوں میں رات ہجر بھی تھا وصال بھی
اس کے ہی بازوؤں میں اور اس کو ہی سوچتے رہے
جسم کی خواہشوں پہ تھے روح کے اور جال بھی
شام کی نا سمجھ ہوا پوچھ رہی ہے اک پتا
موج ہوائے کوئے یار کچھ تو مرا خیال بھی


YAAR BHI RAAH KI DEWAR SAMJHTE HAIN MUJHE

یار بھی راہ کی دیوار سمجھتے ہیں مجھے
میں سمجھتا تھا مرے یار سمجھتے ہیں مجھے
جڑ اکھڑنے سے جھکاؤ ہے مری شاخوں میں
دور سے لوگ ثمر بار سمجھتے ہیں مجھے
کیا خبر کل یہی تابوت مرا بن جائے
آپ جس تخت کا حق دار سمجھتے ہیں مجھے
نیک لوگوں میں مجھے نیک گنا جاتا ہے
اور گنہ گار گنہ گار سمجھتے ہیں مجھے
میں تو خود بکنے کو بازار میں آیا ہوا ہوں
اور دکاں دار خریدار سمجھتے ہیں مجھے
میں بدلتے ہوئے حالات میں ڈھل جاتا ہوں
دیکھنے والے اداکار سمجھتے ہیں مجھے
وہ جو اس پار ہیں اس پار مجھے جانتے ہیں
یہ جو اس پار ہیں اس پار سمجھتے ہیں مجھے
میں تو یوں چپ ہوں کہ اندر سے بہت خالی ہوں
اور یہ لوگ پر اسرار سمجھتے ہیں مجھے
روشنی بانٹتا ہوں سرحدوں کے پار بھی میں
ہم وطن اس لیے غدار سمجھتے ہیں مجھے
جرم یہ ہے کہ ان اندھوں میں ہوں آنکھوں والا
اور سزا یہ ہے کہ سردار سمجھتے ہیں مجھے
لاش کی طرح سر آب ہوں میں اور شاہدؔ
ڈوبنے والے مددگار سمجھتے ہیں مجھے


« Older posts Newer posts »