Aaeina rakh key saamney yaa rab wo fitna saaz,
Tarmeem kar raha hai terey shahkaar mein…
آئینہ رکھ کے سامنے یا رب وہ فتنہ ساز
ترمیم کر رہا ہے تیرے شہکار میں
Urdu poetry collection
نہ جینے کی سہولت ہے نہ مرنے کی اجازت ہے
بہت آسان ہے کہنا، مجھے تم سے محبت ہے
مجھے اُس کی، اُسے اُس کی، اُسے اُس کی ضرورت ہے
سوائے اِس مصیبت کے یہ دنیا خوبصورت ہے
غمِ ہستی ، غمِ بستی ، غمِ دوراں، غمِ ہجراں
اور اس پر بھی دھڑکنا دل کا، ہم کو اس پہ حیرت ہے
کسی کی چپ کا مطلب یہ نہیں، شکوہ نہیں اُس کو
کھلا اعلان ہے یہ تو ، شکایت ہی شکایت ہے
مکر جانا ، بدل جانا ، جفا کرنا ، دغا دینا
یہ سب کچھ آ گیا تجھ کو تو پھر تیری حکومت ہے
نہ اب صیاد ہے حائل نہ میری قید ہے باقی
تو پھر زندان یہ کیونکر ، تو پھر کیسی حراست ہے
کچھ اتنا ڈوب جاتا ہے یہ ابرک ہر کہانی میں
ہر اک کردار کی وحشت لگے اپنی ہی وحشت ہے
خواب دکھلا کے نکل جاتے ہیں تعبیروں سے
ہم بندھے رہتے ہیں خود ساختہ زنجیروں سے
غور کرنے پہ بھی اب یاد نہیں آتا ہے
پوچھنا پڑتا ہے، میں کون ہوں، تصویروں سے
یوں نہیں ہے کہ فقط تو ہی خفا ہے مجھ سے
خود بھی عاجز ہوں بہت، اپنی ہی تدبیروں سے
مجھ کو معلوم نہیں پڑتا عدو کون ہے تو
میں پتہ پوچھتا رہتا ہوں ترا، تیروں سے
جیتنا ہے تو محبت سے ہرانا ہو گا
لوگ ڈرتے نہیں اب آپ کی شمشیروں سے
دن بدل جائیں گے تیرے جو خدا مل جائے
خود بخود ہاتھ چھڑا لے گا تو ان پیروں سے
وہ تو کہتا ہے کہ آسان زباں ہے میری
ہم نے آسانی کو مشکل کیا تفسیروں سے
آج سب سے بڑے ناقد ہیں وہی لوگ مرے
جن کو تحریک ملی تھی مری تحریروں سے
دو گھڑی مانگی جہاں جینے کی فرصت ہم نے
زندگی کو یہ لگا ، کی ہے شکایت ہم نے
جس سے لڑتے ہیں اسے آپ منا لیتے ہیں
خوب بدلی ہے ترے بعد یہ عادت ہم نے
جانے کیا حال ترے بعد ہوا ہو اپنا
تیرے جاتے ہی کیا خود کو بھی رخصت ہم نے
ایک ہی شخص پہ موقوف جہاں کیا کرنا
دل کو بہکایا بہت ، لاکھ کی منت ہم نے
کٹ گئے یونہی ترے ہجر میں سب ماہ و سال
ایک صورت کے سوا دیکھی نہ صورت ہم نے
یونہی الزام نہ دے دیکھ بھلے یاروں کو
کسی ناصح کی سنی کب ہے نصیحت ہم نے
بیچ آتی ہیں ہمیں روز ہماری سانسیں
اپنے ہونے کی چکائی بڑی قیمت ہم نے
ایک دنیا ہمیں پہلے بھی یہاں جانتی تھی
بس ترے غم ہی سے پائی نہیں شہرت ہم نے
اپنے حالات پہ ہنستے ہیں بہت ہنستے ہیں
کیسی کم ظرف یہ پائی ہے طبیعت ہم نے
حادثے زخم بھی دیتے ہیں سبق بھی ابرک
ایک ہی شخص سے پکڑی بڑی عبرت ہم نے
نہ جانے کتنے ٹکڑوں میں بٹا ہوں
میں اپنے ہاتھ سے خود گر پڑا ہوں
گھٹن ، وحشت ہی باقی رہ گئی ہے
میں کب کا خود سے ہجرت کر چکا ہوں
روایت سے نہیں بنتی ہے میری
خطا میری ہے میں کیوں سوچتا ہوں
مٹانے کو مجھے سب مر رہے ہیں
سو یہ تو طے ہؤا سب سے بڑا ہوں
تمہارے مشوروں سے لگ رہا ہے
میں دنیا میں اکیلا رہ گیا ہوں
یہی اک حل سمجھ آیا تھا مجھ کو
خفا تجھ سے تھا خود سے لڑ پڑا ہوں
کوئی آئے بٹائے ہاتھ میرا
میں اپنے بوجھ سے تھکنے لگا ہوں
مقابل زیر کر بیٹھا تو دیکھا
اب اپنے سامنے میں خود کھڑا ہوں
رہتا ہے ساتھ ساتھ وہ جانے کے بعد بھی
ملبہ وہیں پڑا ہے اٹھانے کے بعد بھی
سمجھے تھے ہم کہ آخری دشواریاں ہیں یہ
اک اور تھا زمانہ ، زمانے کے بعد بھی
کر ہجر میں شمار اسے وصل میں نہ لکھ
آیا نہ اب کی بار وہ آنے کے بعد بھی
مجھ سے زیادہ حافظہ ہے مبتلا مرا
پڑھتا ہے تیرے خط یہ جلانے کے بعد بھی
اب پیرِ تسمہ پا سے نہیں کم یہ زندگی
جو بچ گئی ہے تجھ پہ لٹانے کے بعد بھی
یوں کارِ عشق فرق ہے کارِ جہان سے
بڑھتا ہے بوجھ اور گھٹانے کے بعد بھی
تقدیر سے انہیں بھی گلہ ہے، عجیب ہے
ملتے نہیں جو لوگ ملانے کے بعد بھی
شاید رواج ہی نہیں ابرک یہاں رہا
رسوا ہوں کیوں وگرنہ نبھانے کے بعد بھی
ایسی سیاہ رات سے ہے واسطہ پڑا
روشن ہؤا دیا نہ جلانے کے بعد بھی
اکتا گیا ہے اک ہی مشقت سے دل مرا
لگتا نہیں ہے اب یہ لگانے کے بعد بھی
© 2025 EAGLE SITE
Theme by Anders Noren — Up ↑