لے گیا روح ، بدن چھوڑ گیا
خواب آنکھوں میں کفن چھوڑ گیا
ہم کو مشکل میں مگن چھوڑ گیا
دل بھی اب تیری لگن چھوڑ گیا
دوست آیا تھا تُو تو میرے لئے
تُو تو اپنی بھی تھکن چھوڑ گیا
پہلے مہکا کوئی خوشبو کی طرح
پھر وہ سانسوں میں گھٹن چھوڑ گیا
ہم پرندوں پہ تھی ہجرت لازم
جب شجر ہی وہ چمن چھوڑ گیا
پھر وفا کا سکھا کے ہم کو چلن
خود وہ کم ظرف یہ فن چھوڑ گیا
Category: Poetry (Page 10 of 59)
Urdu poetry collection
دور حدِ نظر سے آگے کہیں
زندگی اب بھی مسکراتی ہے
اب بھی سورج کی ہے وہی عادت
گھر کے آنگن کو وہ جگاتا ہے
مرمریں شوخ سی حسیں کرنیں
چہرے سب چوم کر اٹھاتی ہیں
وہاں صبحیں بڑی توانا ہیں
اور سب دن بھی خوب دانا ہیں
منہ اندھیرے سفر کو جاتے ہیں
روز پھر گھر میں شام ہوتی ہے
وہی برگد تلے کی ہیں شامیں
ایک حقہ تو ہیں کئی سامع
اب بھی فکریں گلی محلے کی
باتوں باتوں میں ختم ہوتی ہیں
وہی بچوں کا ہے حسیں بچپن
جگنو, تتلی کی ہے وہی ان بن
وہی جھریوں سی پیاری نانی ہے
وہی پریوں کى اک کہانی ہے
سبھی موسم وہاں نشیلے ہیں
وہی قوسِ قزح کے جھولے ہیں
وہاں بارش کی مستیاں اب تک
ٹین کی چھت پہ گنگناتی ہیں
ہے سخن باکمال لوگوں کا
میٹھا پن لازوال لہجوں کا
سچ ہے جذبوں کی روح میں شامل
واں محبت نہ آزماتی ہے
وہاں باقی ہے دوستی کا مان
اور رشتوں میں جان باقی ہے
اب بھی جنت ہے ماں کے قدموں میں
اب بھی ماں لوریاں سناتی ہے
خوشبویں مٹیوں میں زندہ ہیں
عکس بھی پانیوں میں ہیں باقی
اب بھی تاروں کے سنگ راتوں کو
چاندنی محفلیں سجاتی ہے
اب بھی راتوں کو چاند کی سکھیاں
اپنے چندا سے ملنے جاتی ہیں
اور کھڑے دور ایک سائے کو
اپنی سب دھڑکنیں سناتی ہیں
اب تلک امن فاصلوں میں ہے
جشن بھرپور قافلوں میں ہے
گھر کو سب لوٹتے مسافر ہیں
ان کی یادیں نہیں ستاتی ہیں
چلو ہم بھی وہیں پہ چلتے ہیں
دل جہاں آج بھی دھڑکتے ہیں
جہاں اب تک یہ وقت ساکن ہے
زندگی اب بھی مسکراتی ہے
دور حدِ نظر سے آگے کہیں
زندگی اب بھی مسکراتی ہے
مرے حصے میں کم کم آ رہا ہے
کہاں تو یار بٹتا جا رہا ہے
میسر چودھویں کا چاند بھی ہے
اماوس کا مزا بھی آ رہا ہے
ہمیں اس پھول سے یہ مسئلہ ہے
کہ خوشبو چار سو پھیلا رہا ہے
بچھڑنے تک یقیں تھا پھر یہ خطرہ
ٹلے گا جس طرح ٹلتا رہا ہے
نہ خود کو کوس تو اپنے کئے پر
ہمارے ساتھ یوں ہوتا رہا ہے
جہاں تو تھا وہاں کوئی رہے کیوں
ہمارا خود سے یہ جھگڑا رہا ہے
جدائی نے بجھا ڈالا ہے اس کو
ترے پہلو میں جو جلتا رہا ہے
آزمانے کی چیز تھا ہی نہیں
دل لگانے کی چیز تھا ہی نہیں
کاش بر وقت ہم سمجھ پاتے
تو گنوانے کی چیز تھا ہی نہیں
ہو کے ناراض تجھ سے یہ جانا
میں منانے کی چیز تھا ہی نہیں
جی جلا کر خبر یہ ہوتی ہے
جی جلانے کی چیز تھا ہی نہیں
متفق ہوں میں اس زمانے سے
میں زمانے کی چیز تھا ہی نہیں
اس کی بخشش ہے ہم فقیروں پر
غم کمانے کی چیز تھا ہی نہیں
مجھ کو بھولے ہوئے بھی مانتے ہیں
میں بھلانے کی چیز تھا ہی نہیں