Sab jurm meri zaat sey mansoob hain Muhsin,
Kya merey siwa shehr mein masoom hain sarey…
سب جرم میری ذات سے منسوب ہیں محسن
کیا میرے سوا شہر میں معصوم ہیں سارے

اپنی پلکوں پہ جمی گرد کا حاصل مانگے
وہ مسافر ہوں جو ہر موڑ پہ منزل مانگے
.
میری وسعت کی طلب نے مجھے محدود کیا
میں وہ دریا ہوں جو موجوں سے بھی ساحل مانگے
.
خواہش وصل کو سو رنگ کے مفہوم دئیے
بات آساں تھی مگر لفظ تو مشکل مانگے
.
دل کی ضد پر نہ خفا ہو میرے افلاک نشیں
دل تو پانی سے بھی عکس ماہ کامل مانگے
.
سانس میری تھی مگر اس سے طلب کی محسن
جیسے خیرات سخی سے کوئی سائل مانگے
.
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا
کبھی تو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا
کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیر نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا
رگ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا
جسے غم سمجھ رہے ہو یہ اگر شرار ہوتا
غم اگرچہ جاں گسل ہے پہ کہاں بچیں کہ دل ہے
غم عشق گر نہ ہوتا غم روزگار ہوتا
کہوں کس سے میں کہ کیا ہے شب غم بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا
ہوئے مر کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا
نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا
اسے کون دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا
جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دو چار ہوتا
یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالبؔ
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
جُنوں میں شوق کی گہرائیوں سے ڈرتا رہا
میں اپنی ذات کی سچّائیوں سے ڈرتا رہا
محبّتوں سے شناسا ہُوا میں جس دن سے
پھر اُس کے بعد شناسائیوں سے ڈرتا رہا
وہ چاہتا تھا کہ تنہا مِلوں، تو بات کرے !
میں کیا کروں کہ میں تنہائیوں سے ڈرتا رہا
میں ریگزار تھا، مجھ میں بسے تھے سنّاٹے
اِسی لئے تو میں شہنائیوں سے ڈرتا رہا
میں اپنے باپ کا یوسف تھا، اِس لئے مُحسن
سُکوں سے سو نہ سکا، بھائیوں سے ڈرتا رہا
ہٹا کر جھوٹ سے پردہ صداقت کون لکھے گا
اگر ہم بھی چھپائیں تو حقیقت کون لکھے گا
اگر تم جھوٹ، رشوت اور مکاری سے جیتو گے
تو پھر ایسی سیاست کو سیاست کون لکھے گا
بہائے کتنے تو نے خون تخت و تاج کی خاطر
نبھائی تُو نے کس کس سے عداوت کون لکھے گا
قصیدے شاہ کے لکھنے میں جب مصروف ہوں سارے
تو پھر بھوکی رعایا کی شکایت کون لکھے گا
کہانی ظلم کی ہر شخص کو معلوم ہے لیکن
کرے گا کون پر لکھنے کی جرات، کون لکھے گا
یہ مانا شاعری تو خوب لکھتا ہے مگر تیرے
فنِ تحریر کو فہم و فراست کون لکھے گا
یہاں ہر شخص ہی مصروف ہے پیسے کمانے میں
حقیقت میں تو سچ لکھنا ہے دولت کون لکھے گا
تمہاری وجہِ شہرت تو فقط ہے خوف اے ظالم
تمہارا نام دنیا میں محبت کون لکھے گا
اگر ہر بار گھبراوگے تم حق بات کہنے سے
تمہاری بزدلی کو پھر شرافت کون لکھے گا
جہاں انسان کی اپنی کوئی قیمت نہیں
وہاں انسان کے جذبوں کی قیمت کون لکھے گا
© 2025 Hobbies
Theme by Anders Noren — Up ↑