محبت ہو تو تنہا ئی میں بھی اک کیف ہو تا ہے
تمنا ؤں کی نغمہ آفریں محفل ہے تنہا ئی
بہت دن وقت کی ہنگامہ آرائی میں گزرے ہیں
انھیں گزرے ہوئے ایام کا حاصل ہے تنہائی
ہجوم ِزیست سے دوری نے یہ ما حول بخشا ہے
اکیلی میں ، مرا کمرہ ہے اور قا تل ہے تنہا ئی
مرے ہر کام کی مجھ کو و ہی تحریک دیتی ہے
اگر چہ دیکھنے میں کس قدر مشکل ہے تنہا ئی
اسی نے تو تخیل کو مرے پر واز بخشی ہے
خدا کا شکر ہے جو اب کسی قا بل ہے تنہا ئی
محبت کی شعا عوں سے توا نا ئی جو ملتی ہے
اسی رنگینیءِ مفہوم میں دا خل ہے تنہا ئی
خدا حسرت زدہ دل کی تمنا ؤ ں سے وا قف ہے
دعائیں روز و شب کرتی ہوئی سائل ہے تنہائی
کسی کی یاد ہے دل میں ابھی تک انجمن آ را
سبیلہ کون سمجھے گا کہ میرا دل ہے تنہائی
Author: Admin (Page 45 of 63)
اس وقت تو یوں لگتا ہے اب کچھ بھی نہشیں ہے
مہتاب نہ سورج، نہ اندھیرا نہ سویرا
آنکھوں کے دریچوں پہ کسی حُسن کی چِلمن
اور دل کی پناہوں میں کسی درد کا ڈیرا
ممکن ہے کوئی وہم تھا، ممکن ہے سُنا ہو
گلیوں میں کسی چاپ کا اِک آخری پھیرا
شاخوں میں خیالوں کے گھنے پیڑ کی شاید
اب آ کے کرے گا نہ کوئی خواب بسیرا
اِک بَیر، نہ اِک مہر، نہ اِک ربط نہ رشتہ
تیرا کوئی اپنا، نہ پرایا کوئی میرا
مانا کہ یہ سُنسان گھڑی سخت کڑی ہے
لیکن مِرے دل یہ تو فقط اِک ہی گھڑی ہے
ہمت کرو جینے کو تو اِک عمر پڑی ہے
اب کے تجدید وفا کا نہیں امکاں جاناں
یاد کیا تجھ کو دلائیں ترا پیماں جاناں
یوں ہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے
کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں
زندگی تیری عطا تھی سو ترے نام کی ہے
ہم نے جیسے بھی بسر کی ترا احساں جاناں
دل یہ کہتا ہے کہ شاید ہے فسردہ تو بھی
دل کی کیا بات کریں دل تو ہے ناداں جاناں
اول اول کی محبت کے نشے یاد تو کر
بے پیے بھی ترا چہرہ تھا گلستاں جاناں
آخر آخر تو یہ عالم ہے کہ اب ہوش نہیں
رگ مینا سلگ اٹھی کہ رگ جاں جاناں
مدتوں سے یہی عالم نہ توقع نہ امید
دل پکارے ہی چلا جاتا ہے جاناں جاناں
ہم بھی کیا سادہ تھے ہم نے بھی سمجھ رکھا تھا
غم دوراں سے جدا ہے غم جاناں جاناں
اب کے کچھ ایسی سجی محفل یاراں جاناں
سر بہ زانو ہے کوئی سر بہ گریباں جاناں
ہر کوئی اپنی ہی آواز سے کانپ اٹھتا ہے
ہر کوئی اپنے ہی سائے سے ہراساں جاناں
جس کو دیکھو وہی زنجیر بہ پا لگتا ہے
شہر کا شہر ہوا داخل زنداں جاناں
اب ترا ذکر بھی شاید ہی غزل میں آئے
اور سے اور ہوئے درد کے عنواں جاناں
ہم کہ روٹھی ہوئی رت کو بھی منا لیتے تھے
ہم نے دیکھا ہی نہ تھا موسم ہجراں جاناں
ہوش آیا تو سبھی خواب تھے ریزہ ریزہ
جیسے اڑتے ہوئے اوراق پریشاں جاناں
حاکم کو میرے حال سے رغبت نہیں کوئی
بارش کا سر پہ زور ہے اور چھت نہیں کوئی
سیلاب لے گیا مرے تن کا لباس بھی
حیرت ہے اب بھی آپ کو حیرت نہیں کوئی
ہر شے کے نرخ بڑھ گئے ، افسوس اس کا ہے
انساں کی میرے دیس میں قیمت نہیں کوئی
اک دن ہوائے وقت کی زد میں تُو آئے گا
اور آئے گی صدا تجھے مہلت نہیں کوئی
مالک مرے سبھی رضاکاروں کی خیر ہو
اس کارِ خیر سے بڑی عظمت نہیں کوئی
khud bhi kuch kam nahin mein apni tabahi ke lye
doston se mujhey imdad bhi aa jati hai
rona hota hai kisi or hawale se mujhey
or aesey mein teri yaad bhi aa jati hai
خود بھی کچھ کم نہیں میں اپنی تباہی کے لیے
دوستوں سے مجھے امداد بھی آ جاتی ہے
رونا ہوتا ہے کسی اور حوالے سے مجھے
اور ایسے میں تری یاد بھی آ جاتی ہے