mein pa na saka is khalish se chotkara
wo mujhe jeet bhi sakta tha, na jane kyun hara
میں پا نہ سکا اس خلش سے چھٹکارا
وه مجھے جیت بھی سکتا تھا؛نا جانے کیوں ہارا
اُلجھن کا عِلاج آہ کوئی کام نہ آیا !
جی کھول کے رویا بھی تو آرام نہ آیا
دل سینے میں جب تک رہا آرام نہ آیا
کام آئے گا کِس کے جو مِرے کام نہ آیا
کام اُس کے نہ کاش آئے وہ مغرور بھی یونہی
جیسے دلِ آوارہ مِرے کام نہ آیا
یہ کہہ کے وہ سرہانے سے بیمار کے اُٹّھے
صد شکر، کہ مجھ پر کوئی الزام نہ آیا
بجلی سی کوئی شے مِرے سینہ میں کبھی تھی
سوچا تو بہت، یاد مگر نام نہ آیا
تا حشر نہ بُھولے گا عزیز اپنی شبِ ہجر
کیا رات تھی وہ رات، کہ آرام نہ آیا
عزیز لکھنوی
© 2025 Hobbies
Theme by Anders Noren — Up ↑