سر یہ ہر حال جھکا ، ہم نے قناعت کی تھی
اک تری بار ہی بس رب سے شکایت کی تھی
اِس قدر سخت سزا بھی تو نہیں بنتی تھی
ہم نے بچپن سے نکلنے کی شرارت کی تھی
ہوش والوں کی نہ باتوں میں ہمی آئے کبھی
ورنہ ہر اک نے سنبھلنے کی ہدایت کی تھی
معتبر تھے کبھی دنیا کی نظر میں ہم بھی
پھر ہوا یوں کہ مری تم نے حمایت کی تھی
ہم نے مانا کہ چلو مرکزی مجرم ہم ہیں
کچھ دنوں تم نے بھی تو ہم سے محبت کی تھی
بے وفاوں سے وفا خبط ہے لا حاصل سا
ہمیں معلوم تھا پھر بھی یہ حماقت کی تھی
نفع نقصان کی باتیں نہیں جچتی ہم کو
ہم نے کب یار ترے ساتھ تجارت کی تھی
مبتلا تازہ ہے تو، خوش ہے محبت سے تو سُن
اس نے آغاز میں ہم پر بھی عنایت کی تھی
کیوں زبانوں پہ فقط نام ترا ہے ابرک
تم سے پہلے بھی تو کتنوں نے بغاوت کی تھی
Author: Admin (Page 22 of 54)
وہی ہے غیر جو محرم ہے کیا کیا جائے
ہوا کے دوش پہ پرچم ہے کیا کیا جائے
ہم اپنے ظلم کی فریاد لے کے آئے تھے
تمہارا اپنا ہی ماتم ہے کیا کیا جائے
یہ کس چراغ نے مشکل میں ڈال دی ہے ہوا
نہ بجھ رہا ہے نہ مدھم ہے کیا کیا جائے
ہمارے خون کی اوقات ہی نہیں کوئی
ترا لعاب بھی زم زم ہے کیا کیا جائے
بتا دیا ہے تجھے ‘ یہ سماں نہیں ہونا
نظر ہٹائی تو ہم نے یہاں نہیں ہونا
تجھے سمجھنا پڑے گا بہاؤ کا مسلک
جو آب شار ہے اُس نے کنواں نہیں ہونا
مجھے سراب کِیا ہے تو کر نظارہ بھی
کہ ایسی رَیت نے پھر یوں رواں نہیں ہونا
اسی یقین میں ہر ایک ہو گیا معدوم
کہ میں نہیں ہوں وہ ، جس کا نشاں نہیں ہونا
ہم اپنی تَہہ میں بھڑکتے ہوئے سمجھتے ہیں
کہ اِس الاؤ نے شاید دھواں نہیں ہونا
ترا شمار بڑھانے کو صفر ہو جاؤں
مجھے بس اتنا بتا دے کہاں نہیں ہونا
الگ قرینہء صَوت و صدا ہے ہر پَل کا
نواے نیم شبی نے اذاں نہیں ہونا
میں چل رہا تھا ترے ساتھ کس یقین کے ساتھ
ترا بھی رابطہ نکلا منافقین کے ساتھ
ہر ایک رند کی حیرت تھی دیکھنے والی
شریف زادوں کو دیکھا جو بد ترین کے ساتھ
جب آسمان پہ جوڑے بنائے جا رہے تھے
تو خال خال حسیں تھا کسی حسین کے ساتھ
جو سادہ دل ہیں وہی دل کو راس آتے ہیں
میں عشق کر نہیں سکتا کسی ذہین کے ساتھ
تمام شہر نے جھوٹی خبر کو مان لیا
صغیر دیکھا گیا ایک مہ جبین کے ساتھ
اُس کے نزدیک غمِ ترکِ وفا کچھ بھی نہیں
مطمئن ایسا ہے وہ جیسے کہ ہوا کچھ بھی نہیں
اب تو ہاتھوں سے لکیریں بھی مٹی جاتی ہیں
اُس کو کھو کر تو میرے پاس رہا کچھ بھی نہیں
کل بچھڑنا ہے تو پھر عہدِ وفا سوچ کے باندھ
ابھی آغازِ محبت ہے گیا کچھ بھی نہیں
میں تو اس واسطے چپ ہوں کہ تماشہ نہ بنے
تو سمجھتا ہے مجھے تجھ سے گلہ کچھ بھی نہیں
اے شمار آنکھیں اسی طرح بچھائے رکھنا
جانے کس وقت وہ آ جائے پتہ کچھ بھی نہیں
دھرتی چٹخ رہی ہے جو پانی کے باوجود
کچھ تو رُکا ہُوا ہے روانی کے باوجود
اے نخلِ نو بہار تیرے ساتھ کیا ہُوا
شانے جھکے ہوئے ہیں جوانی کے باوجود
ہم صنعتِ تضاد کی زندہ مثال ہیں
ہنسنا پڑا ہے اشک فشانی کے باوجود
یہ دورِ داستان فروشاں ہے سو یہاں
چلتی نہیں ہے بات کہانی کے باوجود
نقصان تو کرے گی یہ عُجلت کی پختگی
لفظوں میں رَس نہ ہو گا معانی کے باوجود
ہم نے جڑوں سے پیار کیا اور جُڑے رہے
اب تک ہرے ہیں عُمر خزانی کے باوجود
Kitaab-e-zeest ke unwaan badal gaye,lekin
Nisaab-e-jaan se tere tazkire na gaye…
کتاب زیست کے عنوان بدل گئے لیکن
نصاب جان سے تیرے تذکرے نہ گئے
وہی کلام کرے جس کو گفتگو آئے
سخن شناس ہے کوئی تو روبرو آئے
ہم اپنا دل لیے بیٹھے ہیں بام پر بے بس
وہ جن کے پاس تھے پیسے وہ چاند چھو آئے
دئیے بجھائے ہواؤں نے توڑ دی مینا
برس چکی جو گھٹائیں تو ہم سبو آئے
ابھی سے پھر لیے جاتے ہو کوئے دلبر میں
ابھی تو یار لٹا کر ہیں آبرو آئے
اسی اجاڑ اندھیرا بھرے مکاں میں حسن
میں چاند رات سجاؤں جو یار تو آئے
لے گیا روح ، بدن چھوڑ گیا
خواب آنکھوں میں کفن چھوڑ گیا
ہم کو مشکل میں مگن چھوڑ گیا
دل بھی اب تیری لگن چھوڑ گیا
دوست آیا تھا تُو تو میرے لئے
تُو تو اپنی بھی تھکن چھوڑ گیا
پہلے مہکا کوئی خوشبو کی طرح
پھر وہ سانسوں میں گھٹن چھوڑ گیا
ہم پرندوں پہ تھی ہجرت لازم
جب شجر ہی وہ چمن چھوڑ گیا
پھر وفا کا سکھا کے ہم کو چلن
خود وہ کم ظرف یہ فن چھوڑ گیا
عمر بھر رسمِ پیش و پس میں رہے
کیا عجب پھر کہ خار و خس میں رہے
آپ کے غم کی دسترس میں رہے
اس برس بھی اُسی برس میں رہے
بے بسی اور کس کو کہتے ہیں
جو نہیں ہے، اسی کے بس میں رہے
تجھ سے ملنا تو خیر خواب ہی تھا
خود سے ملنے کی ہم ہوس میں رہے
صید ہوتے تو کوئی بات بھی تھی
ہو کے صیاد ہم قفس میں رہے